اولاد کی پیدائش۔۔۔ خاتون کی ’کام یاب شادی‘ کی ضمانت؟

خاتون کی ازدواجی زندگی سے متعلق بہت سے ’بیمار رویے‘ اصلاح کے متقاضی ہیں


خوشبو غوری November 19, 2024
خاتون کی ازدواجی زندگی سے متعلق بہت سے ’بیمار رویے‘ اصلاح کے متقاضی ہیں۔ فوٹو : فائل

 آپ نے اکثر گھر کی بڑی عمر کی خواتین، امی، نانی، دادی وغیرہ سے یہ بات سنی ہوگی کہ بچے کی پیدائش سے عورت اپنی جگہ مضبوط ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی کچھ طعنے اور ہائے واویلا بھی سنا ہوگا کہ ہائے ہائے شادی کو اتنے سال ہوگئے ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔۔۔! اگر اولاد نہ ہوئی تو شوہر تو دوسری شادی کرلے گا۔ سب سے بڑھ کر ان خواتین کے سر پر لٹکتی ہوئی ’اولاد نرینہ‘ کی تلوار بھی کسی امتحان، آزمائش یا ناکردہ گناہوں کے سزا سے کم تو نہیں۔

بہت سے خاندانوں میں بچے کی پیدائش نہ ہونے کی صورت میں ماؤں کو اپنے بیٹوں کی دوسری شادی کرنے کا انتہائی ٹھوس جواز مل جاتا ہے کہ اب تک خاندان کا ’وارث‘ نہیں آیا، جیسا کہ یہ خاندان زمین پر کسی معدوم ہوتی ہوئی مخلوق کی آخری نسل میں سے ہے کہ اولاد نرینہ کے نہ ہونے کی صورت میں صفحۂ ہستی سے اس خاندان کا وجود ہی مٹ جائے گا اور رہتے دم تک یہ دنیا اس خاندان کی آخری نسل کے لیے ترستی رہے گی۔

حد تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ جوڑا اواد کے بغیر بھی ایک خوش گوار زندگی گزار رہا ہے، تو یہ بھی لوگوں اور خاندان والوں کی برداشت سے باہر ہوتا ہے کہ کیسے کوئی شادی شدہ جوڑا بنا اولاد کے مطمئن اور خوش حال ہے اور اس جوڑے کو احساس محرومی دلانے کے لیے لوگ مختلف ’مفت مشورے‘ یا نسخے دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواتین کی شادی شدہ زندگی میں کام یابی اور خوشیوں کے متعلق ہمارے معاشرے میں کئی روایتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ان تصورات میں سے ایک یہ ہے کہ خواتین کے لیے شادی میں کام یابی کا دارومدار اولاد کی پیدائش پر ہے، خاص طور پر اولاد نرینہ پر۔ یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ بیٹے کی پیدائش ہی عورت کی کام یابی اور اس کی شادی کے استحکام کی ضمانت ہے۔

ہمارے معاشرے میں جان بوجھ کر ارادتاً خواتین کو ایسا محسوس کرایا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا اصل مقصد اورکام صرف اور صرف بچوں کی پیدائش ہی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ یہ نہیں کر رہی تو وہ ایک ’ناکام‘ اور ’نامکمل عورت‘ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شادی کے اگلے دن سے گھر والوں اور خاندان والوں سمیت محلے والوں کو بھی ’خوش خبری‘ کی جلدی اور انتظار رہتا ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بچے کی پیدائش عورت کی سب سے بڑی کام یابی سمجھی جاتی ہے۔

جب کہ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے، تو اگر میاں بیوی اولاد کے بغیر بھی خوش اور مطمئن ہیں، ہر دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا سہارا ہیں، تو ان کی کی زندگی ایک ساتھ مکمل ہے۔ آپ کا شریک حیات اگر زندگی کے تمام معاملات میں آپ کی تائید ہے، تو بہت سے مسائل تو بنا کسی تیسرے شخص کے حل ہو جاتے ہیں اور شادی شدہ جوڑے کو زندگی میں کوئی کمی بھی محسوس نہیں ہوتی۔

ہمارے معاشرتی نظام میں اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عورت کی اصل کام یابی صرف اس کی ماں بننے ہی میں پنہاں ہے۔ خاص طور پر جب وہ بیٹے کو جنم دیتی ہے، تو اسے معاشرے میں ایک بلند مقام ملتا ہے۔ بہت سی خواتین اس دباؤ کو محسوس کرتی ہیں کہ ان کے شوہر اور سسرال کی خوشی اور شادی کے استحکام کا دارومدار اولاد کی پیدائش اور بالخصوص بیٹے کی پیدائش پر ہے، لیکن ہم بحثیت انسان یہ اہم بات بھول جاتے ہیں کہ ایک کام یاب شادی کے لیے اولاد سے زیادہ محبت، اعتماد، اور احترام ضروری عناصر ہیں، جو کہ صرف اولاد کی پیدائش سے نہیں ملتے۔

کسی بھی کام یاب شادی کی بنیاد باہمی احترام، محبت، اعتماد، اور سمجھ بوجھ پر ہوتی ہے۔ اگرچہ اولاد کی موجودگی خوشی کا باعث ضرور بن سکتی ہے، لیکن صرف ایک یہی کسی بھی شادی کی کام یابی یا ناکامی کی ضمانت یا اس کا واحد معیار نہیں ہو سکتی۔

بے اولاد جوڑے بھی ایک خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں، اگر ان کے درمیان محبت، اعتماد، اور ایک دوسرے کے لیے احترام ہو۔

اولاد نرینہ کا تصور خاص طور پر ہمارے معاشرے میں ’صنف‘ پر مبنی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ بچیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ یہ سوچ خواتین کو صرف اس وقت کام یاب سمجھتی ہے، جب وہ بیٹے کو جنم دیں، جب کہ حقیقت میں بچیوں کی پیدائش بھی اتنی ہی قیمتی اور خوشی کا باعث ہوتی ہے۔

اسلام کے مطابق اولاد اللہ کی دین ہے اور کوئی مرد یا عورت اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کی پیدائش کا تعین کرے۔ اللہ نے بیٹے اور بیٹی دونوں کو بالترتیب اپنی نعمت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اس لیے کسی عورت کی شادی شدہ زندگی میں کام یابی یا ناکامی کا دارومدار اولاد یا اولاد نرینہ پر نہیں رکھا جا سکتا۔

دوسری جانب سائنسی تحقیق بھی اس ہی نتیجے پر پہنچی ہے کہ اولاد نرینہ کے ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار عورت بہ جائے مرد پر ہوتا ہے، لیکن یہ بھی ایک فطری چیز اور کسی انسان کے اختیار سے باہر ہے، لہٰذا آج کے دور میں تعلیم یافتہ خواتین اور مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دقیانوسی تصورات کو ختم کریں جو شادی کو محض اولاد کے وجود ہی تک محدود کرتے ہیں۔ ایک خوش حال اور کام یاب شادی کا مطلب یہ نہیں کہ اولاد ہو، بلکہ یہ ہے کہ دونوں شریک حیات ایک دوسرے کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں، اور زندگی کی مشکلات کو مل کر حل کریں۔

شادی شدہ زندگی میں اولاد کا ہونا اہم ضرور ہے، لیکن اولاد یا صرف اولاد نرینہ کا ہونا ہی خواتین کی کام یاب شادی کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔ شادی کی کام یابی کا دارومدار باہمی محبت، اعتماد، اور باہمی احترام پر ہے۔

اولاد اللہ کی طرف سے نعمت ہے، چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی، اللہ جس نعمت سے چاہے ہمارے جھولی بھر دے، یہ اللہ کی مرضی ہے اور اللہ کی رضا میں راضی رہنا ہی اصل خوشی، اطمینان اور کام یابی کی ضمانت ہے۔ لہٰذا کام یاب شادی کی بنیاد صرف اولاد کے ہونے پر قائم نہیں کی جا سکتی۔ عورت کا مقام اور عزت اس کے کردار، رویے، اور خاندان میں اس کے کردار سے وابستہ ہے نہ کہ صرف اولاد یا اولاد نرینہ سے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں