قبائلی معاشرے میں جہاں عورتوں کو تعلیم و صحت جیسے شعبوں میں آگے بڑھنے میں سماجی مشکلات درپیش ہیں، وہیں خواتین کا پولیس جیسے محکمے میں بھرتی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، لیکن اب یہاں اس رویے میں تبدیلی رونما ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ’فاٹا‘ کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اِن قبائلی اضلاع میں پولیسنگ شروع ہوئی، تو مشکل مرحلہ فورس کی تعداد پوری کرنا تھا، لیویز اور خاصہ داروں کو پولیس فورس میں ضم کر کے اس کا حل نکالا تو گیا، لیکن خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے خواتین پولیس بھرتی کرنا بھی لازم تھا، 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد مئی 2018ء میں قبائلی اضلاع کے باقاعدہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے ساتھ ہی وہاں پر پولیس اور عدالتی نظام بھی قائم کیا گیا، ملک میں چھٹی مردم شماری کے مطابق قبائلی علاقوں کی آبادی 50 لاکھ بنتی ہے، جس میں تقریباً نصف خواتین ہیں، جن کے مسائل ومشکلات کے حل کے لیے محکمہ پولیس کی طرف سے پہلے ضلع کرم کے شہر پارا چنار میں ویمن ڈیسک قائم کی گئی، جہاں سات خواتین پولیس اہل کار تعینات ہوئیں، اس ڈیسک پر اب تک خواتین کی جانب سے سینکڑوں مقدمات درج کروائے جا چکے ہیں، جن میں گھریلو تشدد، خلع اور وراثت میں حصے کے مقدمات شامل ہیں۔ قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونے کے ساتھ ہی پولیسنگ کا عمل بھی شروع ہوا۔ مرد اہل کاروں کے ساتھ ساتھ مختلف اضلاع میں پہلے سے موجود لیویز، خاصہ دار فورس سے 34 خواتین اہل کار بھی خیبر پختون خوا پولیس فورس کا حصہ بنیں۔ انضمام کے ساتھ ہی مرد خواتین کے لیے نئی اسامیوں کی تخلیق کے بعد درخواستیں موصول ہونا شروع ہوئیں، لیکن قواعد وضوابط سے نئی بھرتیوں میں مشکلات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ ناخواندگی، عمر رسیدگی، قد کاٹھ میں کمی جیسے مسائل سامنے آئے، لیکن پولیس حکام نے بھرتیوں کے لیے قواعد وضوابط میں نرمی کر دی، بھرتی کا عمل شفاف بنانے کے لیے ڈیٹا کے ذریعے نئی بھرتیاں شروع کی گئیں، دست یاب دستاویز کے مطابق انضمام کے بعد ان اضلاع میں 23 خواتین پولیس اہل کاروں کی بھرتیاں ہوئیں، ضلع خیبر میں چھے، ضلع مہمند دو، ضلع باجوڑ5، ضلع اورکزئی ایک، ضلع شمالی وجنوبی وزیرستان میں چار،چار خواتین پولیس اہل کاروں کو بھرتی کیا گیا اور اب اس تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے، سینٹرل پولیس آفس کے مطابق ضلع کرم میں سب سے زیادہ بارہ، شمالی وزیرستان گیارہ، جنوبی وزیرستان میں پانچ ایف آر، بنوں میں پانچ، ضلع خیبر نو، مہمند سات، باجوڑ پانچ ایف آر، درہ آدم خیل میں ایک، خاتون پولیس اہل کار تعینات ہے، جن میں نئی بھرتی شدہ خواتین بھی شامل ہیں، سینٹرل پولیس آفس کے مطابق خواتین پولیس اہل کاروں کی بھرتی کے لیے دس فی صد کوٹا مختص ہے، جس کے بعد 2016ء میں پولیس فورس جوائن کرنے والی مہک پرویز کو ضلع خیبر میں ایڈیشنل ’ایس ایچ او‘ تھانہ لنڈی کوتل تعینات کیا گیا۔ اس سے قبل تحصیل باڑہ اور جمرود میں بھی خواتین کی اہم عہدوں پر تعیناتی ہو چکی ہے، یاد رہے کہ قبائلی اضلاع اور ضلع خیبر کی تاریخ میں پہلی بار ضلع خیبر کے چار تھانے جمرود، لنڈی کوتل، علی مسجد اور تھانہ باڑہ میں چار خواتین پولیس افسران کو ’ایڈیشنل ایس ایچ اوز‘ کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے، جن میں مہک پرویز مسیح کو ایڈیشنل ایس ایچ او لنڈی کوتل، نائلہ جبار کو ’ایڈیشنل ایس ایچ او‘ تھانہ علی مسجد، فاطمہ سمین جان کو ’ایڈیشنل ایس ایچ او‘ تھانہ باڑہ، نصرت کو ’ایڈیشنل ایس ایچ او‘ تھانہ جمرود جب کہ شانزہ کو اسسٹنٹ لائن آفیسر تعینات کیا گیا ہے، یہ سب بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، اس سے قبل بعض دیگر سابق قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس اہل کار کام کر چکی ہیں، انضمام کے بعد ضلع کرم میں پہلی بار سمرن عامر کو ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسر تعینات کیا گیا تھا، اسی ضلع میں صوفیہ مسیح کو خواتین ڈیسک کی انچارج بنایا گیا تھا، اس سے قبل دیگر اضلاع میں تین خواتین کو بحیثیت سب انسپکٹرز اور ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسرز تعینات کیا جا چکا ہے۔
سابقہ قبائلی اضلاع میں 58 پولیس تھانے ہیں، جب کہ اس سے زیادہ چوکیاں قائم کی گئی ہیں، صوبائی محکمۂ داخلہ و قبائلی امور کے مطابق صوبے میں ضم شدہ اضلاع میں 17 ہزار 354 مقدمات زیر التوا ہیں، وکلا برادری کے مطابق مذکورہ اعداد و شمار میں 200 کے قریب مقدمات خواتین کے ہیں، جن میں خلع اور وراثت میں حق کے لیے دائر کیے گئے ہیں، انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں خاصہ دار اور لیویز فورس کی تعداد 29 ہزار 821 تھی، جب کہ پولیس ایکٹ 2019ء کے تحت 25 ہزار 879 اہل کار پولیس میں ضم کر دیے گئے، تاہم 3 ہزار 852 اسامیاں خالی ہیں، جو دہشت گردی کی لہر میں ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر معطل، جاں بحق اور ریٹائرڈ ہونے والے اہل کاروں کی وجہ سے خالی ہیں۔
ان علاقوں میں خواتین میں کم شرح خواندگی، روایت پسندی اور قبائلی نظام کی وجہ سے خواتین کو پولیس میں نوکری مشکل سے ملتی ہے، مذکورہ اضلاع میں تعینات خواتین پولیس اہل کاروں میں اکثریت مسیحی برادری کی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے ان علاقوں میں آباد ہے، تاہم مقامی پولیس میں اکثریت ہونے کے باوجود قبائلی اضلاع میں مستقل سکونت رکھنے والی چند مسیحی خواتین نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ پولیس میں بھرتی ہو جائیں، لیکن اعلیٰ تعلیم کی شرط اور مشکل تحریری ٹیسٹ کی وجہ سے ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ محکمہ پولیس کی جانب سے مارچ 2022ء میں جاری ایک اعلامیے کے مطابق ضم شدہ اضلاع کی خواتین اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کی پولیس میں بھرتی کے لیے تحریری ٹیسٹ لازمی نہیں جب کہ تعلیمی شرط مڈل سکول کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ کم از کم قد پانچ فٹ ایک انچ اور دوڑ کے لیے ایک کلومیٹر زیادہ سے زیادہ نو منٹ میں طے کرنے کی حد مقرر کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ضم اضلاع کی تاریخ میں پہلی بار باہمی تنازعات کے حل کے لیے ضلع خیبر میں 21 رکنی مصالحتی کونسل بھی قائم کی گئی، جس میں ایک خاتون بھی شامل ہے، قبائلی اضلاع کی طویل جرگہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو بطور کونسل ممبر شامل کیا گیا ہے، آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کے احکامات پر ’ڈی آر سی‘ قائم کی گئی ہے، جس میں علاقے کے غیر متنازع باکردار اور دیانت دار شخصیات کو شامل کیا گیا ہے، اس کونسل کے قیام سے دیوانی مقدمات، لین دین کے تنازعات سمیت خواتین سے متعلق مسائل کے فوری حل میں مدد ملے گی، اسی طرح خواتین کو انصاف تک آسان رسائی کے لیے ضم اضلاع کی تاریخ میں پہلی بار ضلع خیبر کے پولیس اسٹیشن میں ’جینڈر ڈیسک‘ بھی قائم کیا گیا ہے، ضلع خیبر میں 11 لاکھ 47 ہزار آبادی میں سے 6 لاکھ سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، دیگر قبائلی اضلاع کی طرح ضلع خیبر کی خواتین کو بھی عدالت تک رسائی خلاف روایت اور جرم سمجھا جاتا ہے اور انصاف تک رسائی صرف مرد کا حق سمجھا جاتا ہے، 99 فی صد خواتین گھریلو خواتین کے طور پر زندگی گزار رہی ہیں۔ خواتین کی تعلیمی شرح کافی مایوس کن ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کو قانون تک رسائی اور عدالت سے انصاف کے حصول کے حوالے سے لاعلمی کا سامنا ہے، آئی جی پولیس خیبر پختونخوا نے 26 جنوری 2023ء کو ضلع خیبر باڑہ تھانہ میں جینڈر ڈیسک کا باقاعدہ افتتاح کر کے خواتین عملہ تعینات کیا، جینڈر ڈیسک کی ایک خاتون اہل کار فاطمہ آفریدی نے بتایا کہ اس مختصر عرصے میں ڈیسک کے پاس مختلف نوعیت کے درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں، جس میں بیش تر مقدمات کی عدالتی کارروائی مکمل ہوگئی ہے۔
اگر دیکھا جائے، تو خطے کی نازک سیکیورٹی صورت حال کی وجہ سے صوبائی حکومت نے ان اضلاع میں 26 ہزار سے زیادہ پولیس اہل کار تعینات کیے ہیں جب کہ ان علاقوں میں فی الحال صرف 100 سے کم خواتین پولیس اہل کار خدمات انجام دے رہی ہیں، قبائلی علاقے میں ثقافتی پابندیاں اور رہائشی سہولتوں کی کمی پولیس فورس میں خواتین اہل کاروں کی تعداد کم ہونے کی بڑی وجہ ہے، اس کے باوجود اس خطے میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جو طویل عرصے سے ابتر ہے، علاقائی پولیس میں صنفی عدم توازن کا حوالہ دیتے ہوئے خیبر پختون خوا پولیس کے ترجمان ریاض یوسف زئی نے بتایا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بتدریج مزید خواتین افسران کو بھرتی اور تعینات کر کے نظام کو مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق تمام صوبائی سروسز میں خواتین کے لیے 10 فی صد کوٹا مقرر کیا گیا ہے اور ضم اضلاع میں تقریباً تین ہزار خواتین پولیس اہل کار تعینات کرنے کا پروگرام ہے۔
خیبر پختونخواکے کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن نائلہ الطاف کا کہنا ہے کہ ضم شدہ اضلاع میں خواتین کو پولیس یا عدالتی خدمات تک رسائی کے بغیر سنگین گھریلو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بعض اضلاع میں خواتین پولیس اہل کار سرے سے ہی نہیں، ان علاقوں کی خواتین پرانے رسم ورواج کے باعث مسائل کے گرداب میں پھنسی رہتی ہیں، خواتین مرد پولیس اسٹیشنوں میں اپنی شکایات رجسٹر کرانے کے لیے نہیں جا سکتیں، اسی طرح خواتین پولیس اہل کاروں کی تعیناتی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔