بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی جو ذہن پر نقش ہوگئی اور میں پاکستان کے ہر حکمران میں اپنا آئیڈیل حکمران ڈھونڈنے لگا۔
کہانی یہ تھی کہ تین ملکوں کے بادشاہ ایک ملاقات میں ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کچھ عرصہ بعد ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کریں گے اور یہ جاننا چاہیں گے کہ کس کے ملک کا دارالحکومت زیادہ خوبصورت ہے؟
طے شدہ عرصہ کے بعد تینوں بادشاہوں کا پہلے ملک کا دورہ شروع ہوا، جج بھی ساتھ تھے۔ تینوں بادشاہوں اور ججوں نے دیکھا کہ پہلے ملک کے دارالحکومت میں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی تھیں، کشادہ سڑکیں شہر کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں، شہر بہت صاف اور جدید فن تعمیر کا ایک نمونہ تھا۔
لوگ بڑی تعداد میں تینوں بادشاہوں کا استقبال کرنے کےلیے سڑکوں پر موجود تھے۔ سب نے خوبصورتی کو بہت سراہا مگر ججوں کی نظر کسی اور خوبصورتی کی تلاش میں تھی۔
اسی طرح دوسرے ملک کے دارالحکومت کا دورہ شروع ہوا۔ اس شہر میں ہر طرف سرسبز باغات تھے، شہر کو خوبصورت پھولوں سے سجایا گیا تھا، شہریوں نے بھی سڑکوں پر آکر بادشاہوں کے قافلے کا استقبال کیا مگر ان کے چہرے زرد اور وہ خوش نظر نہیں آرہے تھے۔
اس کے بعد تیسرے شہر کا دورہ شروع ہوا، اس شہر میں نہ کوئی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں، نہ ہی پھولوں کے باغات تھے لیکن شہر صاف ستھرا ضرور تھا مگر عمارتیں چھوٹی تھیں۔ یہاں کے شہریوں نے قافلے کا پُرتپاک استقبال کیا، پھول برسائے گئے، شہریوں کے چہرے کی لالی یہ بتا رہی تھی کہ وہ انتہائی خوشحال اور پرسکون ہیں۔ قافلے نے شہر کا دورہ مکمل کیا اور آخر وہ وقت آگیا کہ جج فیصلہ سنائیں کہ کون سا شہر سب سے خوبصورت ہے۔
آخرکار ججوں نے جو فیصلہ دیا وہ سب کی توقعات کے برعکس تھا۔ ججوں نے نہ بڑی بڑی عمارتوں اور کشادہ سڑکوں کی بنیاد پر پہلے شہر کو خوبصورت قرار دیا اور نہ ہی سرسبز باغات کی بنیاد پر دوسرے شہر کو خوبصورت قرار دیا بلکہ انہوں نے سب سے آخر میں جس متوسط شہر کو دیکھا تھا اسے سب سے زیادہ خوبصورت قرار دے دیا۔
فیصلے کی وجہ اس شہر کے لوگ تھے جن کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کےلیے بادشاہ نے اپنی ساری توجہ صرف کی تھی۔ اس شہر کے بادشاہ نے بتایا کہ میں نے اپنے رعایا کو خوشحال بنانے، ان کو روزگار فراہم کرنے، ان کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کےلیے تمام وقت اور تمام توانائی صرف کی۔ جب لوگ خوشحال ہوگئے تو انہوں نے ہماری آمد پر خود ہی شہر کو سجایا اور ان کے چہروں پر خوشی اور سکون اس بات کا گواہ ہے۔
لیکن ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ ہمارے حکمران صرف منصوبوں کے افتتاح کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان منصوبوں کی خوش اسلوبی تکمیل سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ ہمارے شہروں میں سیکڑوں سرکاری اسپتال موجود ہیں مگر ان کا حال اتنا بُرا ہے کہ کوئی بھی شہری مجبوری کے علاوہ وہاں جانا نہیں چاہتا مگر ہمارے حکمران نئے نئے اسپتال بنارہے ہیں، لیکن وہاں سہولتیں نہیں دے رہے۔ کالجوں، یونیورسٹیاں اور اسکولوں کا حال بھی دیکھیں تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
یہ حال صرف کسی ایک صوبے یا شہر کا نہیں، ہر جگہ یہی عالم ہے۔ پہلے چلنے والی ٹریفک کی بہتری کےلیے کوئی کام نہیں کیا جاتا مگر نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
عوام کی خوشحالی کےلیے، ان کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کےلیے کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔ ہمارے سرمایہ دار اور جاگیردار یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام کی ضرورت میڑو بس نہیں نہ ہی بلٹ ٹرین جیسے منصوبے ہیں، عوام کو پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے روٹی، تن ڈھانپنے کےلیے لباس، سر پر ایک مکان کی چھت، اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کےلیے تعلیم، صحت کےلیے علاج کی سہولت اور معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کےلیے روزگار چاہیے۔
اگر یہ حکمران اپنی ترجیحات صرف اپنا ذاتی مفاد اور اپنا شملہ اونچا کرنے، سیاست برائے کرپشن اور سیاست برائے کاروبار سے بدل کر سیاست برائے خدمت کی طرف نہیں لاسکتے تو کبھی بھی ہمارے عوام کا مستقبل محفوظ نہیں ہوسکتا۔
ایسے حالات میں عوام کو آگے بڑھ کر اپنا حق چھیننا ہوگا اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کےلیے ایک پرامن انقلاب کی طرف بڑھنا ہوگا اور یہی انقلاب قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔