فائنل کال، ایک جائزہ

تحریک انصاف کے دوستوں کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ ان کی جماعت ایک ملک گیر جماعت ہے


مزمل سہروردی November 26, 2024

پی ٹی آئی کی فائنل کال کا فائنل راؤنڈ جاری ہے۔ مجھے نہیں معلوم جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے فائنل کال کا فائنل راؤنڈ جاری ہو گا یا ختم ہو چکا ہوگا۔ بہر حال کے پی سے وفاق اور پنجاب پر چڑھائی جاری ہے۔ میں فی الحال کے پی حالات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

تحریک انصاف کے دوستوں کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ ان کی جماعت ایک ملک گیر جماعت ہے۔ چاروں صوبوں میں یکساں مقبول ہے۔ اس لیے ان کی اس فائنل کال کو اس تناظر میںدیکھنے کی ضرورت ہے۔

کیا یہ درست نہیں کہ اس فائنل کال کو پنجاب میں کوئی پذیرائی نہیں ملی ہے؟ پنجاب کے کسی شہر سے بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد کی طرف روانہ نہیں ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ روانہ نہیں ہوئے۔

لیکن میں اس دلیل کو نہیں مانتا۔ انقلاب کی پہلی شرط رکاوٹوں کو ہی عبور کرنا ہے۔ انقلاب کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا جاتا۔ اگر رکاوٹیں کسی انقلاب کا راستہ روک سکتی ہیں تو وہ انقلاب نہیں ہے۔ آپ کہیں گے کہ پنجاب میں لوگ گرفتاریوں کے خوف سے نہیں نکلے۔ لیکن جواب یہ ہے کہ کس مزاحمتی تحریک میں گرفتاریاں نہیں ہوتیں۔

گرفتاریاں کسی بھی مزاحتمی تحریک کا بنیادی جزو ہیں۔ لیکن اگر گرفتاریوں کے خوف سے کسی تحریک میں لوگ نہیں نکلتے تو وہ تحریک مزاحمتی تحریک نہیں ہو سکتی۔ مزاحمتی تحریک میں لوگ رکاوٹوں اور گرفتاریوں سے بے خوف ہو کر نکلتے ہیں اور حکومت کو شکست دیتے ہیں۔ لیکن جہاں حکومت اپنی رٹ سے لوگوںکونکلنے سے روک لے وہاں اس تحریک کی کامیابی کے امکانات مشکوک ہی رہتے ہیں۔

پنجاب میں لوگوں کا نہ نکلنا کے پی کے لوگوں کے نکلنے کو بھی مشکوک بنا رہا ہے۔ جب پنجاب میں تحریک انصاف کی کال پر واقعی چڑیا بھی پر نہیں مار رہی تو کے پی میں نکلنے والے لوگوں کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا بھی درست بن جائے گا کہ یہ لوگ صوبائی حکومت کی سہولت کاری کی وجہ سے نکلے ہیں۔ اگر پنجاب کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ نکلتے تو کے پی کے لوگوں کے نکلنے کو بھی جائز مانا جا سکتا تھا۔

لیکن جب پنجاب خاموش ہے تو کے پی کا شور صوبے کی حکومتی سہولت کاری کی وجہ سے ہے۔ یہ دلیل مضبو ط ہو جاتی ہے۔ اگر لوگ وہیں نکلیں جہاں حکومت ہو گی تو یہ کوئی تحریک نہیں بلکہ حکومتی وسائل اور طاقت سے اپنی مخالف حکومت پر حملہ ہے۔جہاں حکومت نہیں وہاں لوگ نہیں نکلے۔ اس کا مطلب جہاں نکلے ہیں وہاں حکومت ہونے کی وجہ سے نکلے ہیں۔

تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کے حوالے سے یہی تاثر رہا کہ بغیر کسی آشیر باد کے تحریک انصاف کسی بھی قسم کی احتجاجی سیاست نہیں کر سکتی۔ 2014میں اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد تھی۔ اس لیے دھرنا کر لیا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف احتجاج پنجاب اور کے پی کی حکومتوں اور چند ججز کے سر پر کیا گیا۔

جب پنجاب اور کے پی کی حکومتیں ختم ہو گئیں تو نو مئی کے بعد تحریک انصاف ریا ست کی رٹ کے سامنے کھڑی بھی نہیں ہو سکی۔ اسی طرح آج کے پی میں حکومت ہے تو وہاں سے لوگ نکل آئے ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں حکومت نہیں ہے تو پھر وہاں سے لوگ نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کو لوگ نکالنے کے لیے اسٹبشلمنٹ یا حکومت میں کسی ایک چیز کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بغیر ان کی مزاحمتی سیاست کا کوئی امکان نہیں۔

اگر پنجاب میں لوگ اس لیے نہیں نکلے کہ یہاں تحریک انصاف کو مشکلات ہیں تو پھر یہ کیسی تحریک ہے جو صرف وہیں چل سکتی ہے جہاں حکومت ہواور سہولت ہو۔ کراچی میں بھی تحریک انصاف کی مقبولیت کی بہت بات کی جاتی ہے۔ل

یکن فائنل کال میں لوگ کراچی سے بھی نہیں نکلے۔ یہ درست ہے کہ کراچی کے لوگوں کو اسلام آباد آنے سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ کراچی میں تو احتجاج کر سکتے تھے۔ اگر کراچی میں ہزاروں لوگ نکل کر کہیں دھرنا دیتے تو کے پی کے لوگوں کے نکلنے کو ایک جواز مل جاتا۔ لیکن کراچی سے بھی کوئی نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کے چند لیڈر چند گاڑیوں پر نکلے تو وہ پکڑے گئے۔ وہ نکلے ہی اس لیے تھے کہ گرفتاریں دے دیں۔

آپ سابق صدر عارف علوی کو دیکھیں۔ ان کا کراچی سے تعلق ہے لیکن وہ اکیلے ہی چلے گئے۔ کیونکہ انھیں ابھی اندازہ تھا کہ کراچی میں لوگ نہیں نکلیں گے۔ حیدر آباد اور سکھر میں بھی کچھ نہیں ہوا۔

اندرون سندھ تو تحریک انصاف پہلے ہی کمزور رہی ہے۔ اس لیے نہ پہلے کبھی تحریک انصاف اندرون سندھ مضبوط تھی نہ اب ہے۔ اس لیے وہاں سے کوئی لوگ نہیں نکلے۔ اسی طرح بلوچستان سے بھی کوئی لوگ نہیں نکلے۔ وہاں بھی حکومت نہیں تھی۔ اس لیے وہاں بھی لوگ نہیں نکلے۔

بلوچستان میں مزاحتمی تحریکوں کی ایک روایت ہے۔ وہاں اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے خلاف تحریک میں لوگ نکلتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف وہاں بھی لوگ نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ محمود خان اچکزئی ناراض ہیں۔ انھیں منانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ نہیں مانے۔ اس لیے ان کی خاموشی بھی بلوچستان میں نقصان کی شکل میں سامنے آئی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اسلام آباد سے بھی کوئی خاص لوگ نہیں نکلے۔ اگر اسلام آباد سے بھی چند ہزار نکل آتے تو انقلاب کو رنگ لگ جاتا۔ لیکن اسلام آباد سے بھی تحریک انصاف چند ہزار لوگ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

یہ کوئی دلیل نہیں کہ اسلام آباد میں پولیس کی بہت سختی تھی اس لیے لوگ نہیں نکلے۔پھر یہ دلیل اور مضبوط ہو جاتی ہے کہ تحریک انصاف صرف وہیں لوگ نکال سکتی ہے کہ جہاں اس کی حکومت ہو۔ حکومت کے بغیر لوگ نکالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ حکومتی وسائل اور حکومتی سرپرستی میں احتجاجی تحریک نہیں ہوتی۔

اب جہاں تک کے پی سے نکلنے والے لوگوں کا تعلق ہے تو اب تحریک انصاف کی اس فائنل کال کی شکل یہی ہے کہ کے پی سے حکومتی سرپرستی میں لوگ نکالے گئے ہیں۔ اب ایک صوبے کی حکومتی مدد سے وفاق پر حملہ ہے۔ یہ کوئی پورے ملک کی تحریک نہیں بن سکی ہے۔ یہ کوئی انقلاب نہیں بن سکا ہے۔

یہ کوئی قومی تحریک نہیں ہے۔ یہ ایک صوبائی حکومت کا وفاقی حکومت پر حملہ تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب تو یہ رائے بھی ہے کہ اگر کل کے پی میں حکومتی سرپرستی نہیں ہوگی تو وہاں سے بھی لوگ نہیں نکلیں گے۔ یہ سب حکومتی وسائل اور حکومتی سرپرستی سے لگنے والا تماشہ ہے کوئی تحریک نہیں ہے۔ باقی آپ خود سمجھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں