بیرون ملک مقیم پاکستانی جب بھی وطن عزیز پاکستان جاتے ہیں تو جہاں اپنوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے، وہاں اپنے شہروں میں صفائی کے فقدان دیکھ کر بے انتہا دْکھ اور افسوس ہوتا ہے۔
کچھ مسائل بلدیاتی سطح پر حل کیے جانے کے منتظر ہوتے ہیں لیکن بے شمار مسائل ایسے ہیں جنھیں ہم خود اپنے طور پرحل کرسکتے ہیں۔ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ جسے پاکستان میں رہنے والے بالخصوص کراچی اور سندھ میں رہنے والے بہت معمولی سمجھتے ہیں، وہ اپنے گھر کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا عمل ہے،باوجود اس کے کہ کچرا اْٹھانے والے معمولی ماہانہ معاوضوں پر گھروں سے روزانہ کی بنیاد پر کوڑا اْٹھانے آتے ہیں لیکن اْس کے باوجود بھی بے شمار گھروں کے افراد ایسے ہیں جو اپنے گھر کا کچرا گھر سے نکل کر تھوڑی دور سڑک کے کنارے پھینک آتے ہیں اور یہ ان کا روز کا معمول ہے۔یہ افراد اپنے تھوڑے سے پیسے بچانے کے لیے اپنے علاقے اور اپنے شہر کی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ عمل کسی بھی طور ایک اچھے شہری ہونے کی نشاندہی نہیں کرتا، بحثیت مسلمان بھی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے اور ہمارے اس عمل سے اگر راہ چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے توہمیں اس کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر وہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا ، کینیڈا، برطانیہ یا دیگر مغربی ممالک کی طرح بلدیہ کی گاڑیاں ان کے گھروں سے آکر کچرا لے جایا کریں توموجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ابھی اس چیز کے لیے اْنہیں کم ازکم چوہتر برس مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھی لوگوں کا چلتے پھرتے سر راہ کچرا پھیکنامعمولی کی بات ہے ، ہم بیچارے معمولی سا آئسکریم کا ڈبہ بھی سڑک پر پھیکنے کی جسارت نہیں کر سکتے اور اس وقت تک ہاتھ میں لے کر گھومتے رہتے ہیں کہ کہیں کچرے کا ڈبہ نظر آئے تو وہاں ڈالیں۔
ایک اچھا اتفاق یہ ہوا کہ اس بار کینیڈا سے پاکستان آنے پر مجھے کراچی کے علاوہ چار دنوں کے لیے لاہور بھی رْکنے کا موقع ملا، دوستوں نے بہت کہا کہ لاہور میں اسموگ کی وجہ سے صورتحال خراب ہے لیکن میرے پہچنے تک صورتحال کافی بہتر ہو چکی تھی۔ یہاں پر دیگر عوامل کے علاوہ بھٹوں پر اینٹیں بننے اور رکشوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے صورتحال زیادہ خراب ہوجاتی ہے لیکن کراچی اور دیگر شہروں کے مقابلے میں لاہور شہر کی عمدہ صفائی کی وجہ سے اسموگ کی خراب صورتحال میں تھوڑی بہت کمی ضرور واقع ہوتی ہوگی ،خدا نا خواستہ اگر اسموگ کی یہ صورتحال کراچی میں ہوتی تو نہ معلوم کیا ہوتا۔
میرا ایک سوال کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں بالخصوص سندھ حکومت میں شامل ارباب اختیار سے ہے کہ کیاخوبصورت لاہور اور یہاں کی تعمیر ات، سڑکوں کی عمدہ صورتحال اور صفائی کو دیکھ کر اْن کے دل میں بھی کراچی کے لیے کچھ کرنے کا خیال آتا ہے؟ کیونکہ سیاسی طور پر بھی دوسرے شہروں میں ہونے والی ترقی کو دیکھ کر اپنے شہر میں کچھ کرنے کا عزم پیدا ہوتا ہے تاکہ ووٹ بینک کو بڑھایا جاسکے۔
آخری بات! پاکستان ایک اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے الحمداﷲ یہاں کے ائیر پورٹس پر نماز پڑھنے اور وضو وغیرہ کی سہولت موجود ہے، اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران جب میں لاہور سے دبئی کے لیے روآنہ ہورہا تھا تو ظہر کی نمازکے لیے ائیر پورٹ کے اندر موجود مسجد میں جانے کا موقع ملا، مختصر سی چار پانچ صفوں پر مشتمل مسجد میں خوبصورت کارپیٹ موجود تھا لیکن عمرہ پر جانے والے زائرین کے احرام میں نماز پڑھنے کی وجہ سے کارپیٹ پر تولیے والے احرام کے دھاگوں سے خراب ہورہا تھا، اگر اس پرتھوڑی سی توجہ دے دئی جائے اور ویکیوم کی صفائی کے ساتھ اگر ہاتھ کے ساتھ اچھے برش سے اس کی صفائی بھی کی جائے تو یہ کارپیٹ کافی عرصہ چل سکتا ہے وگرنہ بہت ہی کم عرصہ میں یہ کارپیٹ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اس طرح کی اور بھی بے شمار چھوٹی چھوٹی مگر قابل غور باتیں ہیں جنھیں ہم تھوڑی سی توجہ دیکر دور کرسکتے اور ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔