پاکستان کے موجودہ نظام کو بدلنے کے سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ خوشنما نعرے تو دہائیوں سے سننے میں آتے رہے ہیں کہ ملک کی خوشحالی و ترقی کے لیے ’’ چہرے نہیں نظام بدلو‘‘ یہ نعرہ ہر الیکشن میں سننے کو ملا مگر عوام نے اس طرف توجہ دی نہ ہم پر مسلط کیے گئے حکمرانوں نے موجودہ نظام بدلنے میں دلچسپی لی کیونکہ یہ نظام ہی تمام حکمرانوں کو سوٹ کرتا رہا ہے تو وہ یہ نظام بدلنے کی کوشش کیوں کرتے؟ چہرے ملکی سیاست میں صرف حکومت کرنے والوں کے بدلے جو تمام ان کے اپنے خاندانوں کے ہی افراد تھے۔
یہ حکمرانی چہرے بھی اس لیے بدلے کہ خاندان کے بڑے کا انتقال ہوا تو سیاست میں اس کی جگہ بھرنے کے لیے اس کے بیٹے آگئے یا دیگر قریبی رشتے داروں نے مرحومین کی خالی جگہ سنبھال لی اور سیاسی ورثے میں ملی سیاست میں چہرے تو تبدیل ہوئے مگر نظام نہیں بدلا اور وہی رہا۔
ملک میں غیر سول افراد نے بھی حکومت کی اور ان کی ریٹائرمنٹ میں اس وقت تک توسیع ہوتی رہی جب تک کسی وجہ سے اس نے خود اقتدار چھوڑا یا چھڑوایا گیا یا کوئی اللہ کو پیارا ہوا اور ان کے بیٹے یا عزیز نے حکومت نہیں کی جب کہ سیاستدانوں نے سیاست اور اقتدار کے لیے اپنے جانشین ضرور مقررکیے، جنھیں سیاست ورثے میں ملی جس کا نتیجہ ہے کہ بھٹو اور شریف خاندان سالوں سے سیاست میں ہیں اور حکمرانی کر رہے ہیں اور یہ پہلا موقعہ ہے کہ ان دونوں کا ایک فرد صدر مملکت ہے تو دوسرا وزیر اعظم اور پنجاب میں حکمران ہیں۔
پاکستان کے قیام کو تین سال بعد آٹھ دہائیاں مکمل ہو جائیں گی جس میں سیاست اور اقتدار میں صرف چہرے بدلے یا خاندان اور بھٹو خاندان کی جگہ زرداری خاندان نمایاں ہو گیا کیونکہ آصف زرداری کی بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ بھٹو خاندان میں چار افراد کی شہادت اور نصرت بھٹو کی وفات کے بعد بھٹو کی جگہ زرداری خاندان نے لے لی اور اب بلاول زرداری کو اقتدار کی جانب لایا گیا ہے۔
ساؤتھ افریقہ میں ایک یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر مندرجہ ذیل جملے درج ہیں کہ ’’ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور دور تک مار کرنے والے میزائل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے نظام تعلیم کا معیار گرا دو اور طلبا و طالبات کو امتحان میں نقل کرنے کی اجازت دے دو وہ قوم خود بخود تباہ ہو جائے گی۔‘‘
اس ناکارہ نظام تعلیم سے نکلنے والے ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض مرتے رہیں گے۔ مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں انسانیت تباہ ہو جائے گی۔ معیشت دانوں کے ہاتھوں دولت ضایع ہو جائے گی۔ انجینئروں کے ہاتھوں عمارات تباہ ہو جائیں گی اور ججوں کے ہاتھوں انصاف کا قتل ہو جائے گا۔
(نظام تعلیم کی تباہی قوم کی تباہی ہوتی ہے۔) لگتا ہے کہ ساؤتھ افریقہ میں وہاں کے وکیلوں کے ہاتھوں نظام عدل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا یا وہاں کی سیاست میں وکیلوں کا وہ عمل دخل نہیں ہے جو پاکستان میں ہے بلکہ پاکستان میں تو ایک سیاسی پارٹی مکمل طور پر وکیلوں کے ہاتھ آ چکی ہے جس کا بانی جیل میں رہ کر اپنے مقدمات بھگت رہا ہے اور مفت کے وکلا اس کے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں جس کے دو بیٹے ملک سے باہر ہیں اور پارٹی کی وراثت وکیلوں کو مل گئی ہے۔
ملک میں اگر وکیلوں کی تعداد اور اثر و رسوخ کی بات کی جائے تو یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ملک میں لاء کالجوں کی تعداد نے وکیلوں کی تعداد ہزاروں ، لاکھوں تک بڑھا دی ہے۔ پنجاب میں پہلے صرف ایک لا کالج سرکاری ہوتا تھا جب کہ پنجاب میں لاتعداد پرائیویٹ کالجوں نے پنجاب میں لاکھوں کی تعداد میں وکیلوں کو ڈگریاں جاری کی ہیں اور صرف لاہور میں تقریباً 35 ہزار وکیل رجسٹرڈ ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت میں بڑی تعداد میں وکیلوں کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔ عدالتوں میں وافر تعداد میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے مگر سب کو تو سرکاری ملازمت نہیں دی جا سکتی تھی جس پر وہ تمام وکیل پریکٹس کر رہے ہیں اور نجی لا کالجوں کی ڈگریوں سے ان میں کتنی صلاحیت ہے یہ وہی جانتے ہیں۔
یہی حال ملک میں سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز کا بھی ہے۔ ملک میں نجی لا اور میڈیکل کالجز کی بہتات نے جو تعلیمی تباہی پھیلائی ہے اس کا مداوا ممکن ہی نہیں ہے یہ ہمارے تعلیمی نظام کی وجہ سے ہے جن پر حکومتی چیک نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کالجوں نے قانون اور طب کے شعبوں میں لاکھوں روپے کی اپنی فیسیں وصول کرکے جو ڈگریاں جاری کی ہیں اس کا نتیجہ پورا ملک بھگت رہا ہے کیونکہ ان نجی کالجزکا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے ڈاکٹروں کی جو صلاحیت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور غیر حقیقی علاج اور نااہلی سے بے گناہ مریض مر رہے ہیں۔