ڈونلڈ ٹرمپ بازی لے جائیں گے، یہ کسی نے سوچا نہ تھا پر قدرت کو ایسا ہی منظور تھا، بات سوچنے کی ہے کہ بائیڈن چند مہینے کی دوری پر ایسے بیمار پڑے کہ انھیں انتخابات کے سلسلے کی کٹھن اور دشوار راہوں پر چلنا دوبھر ہوگیا، آخر مجبوراً کملا ہیرس کا سہارا لیا گیا اور ان صاحبہ نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے گھاگ سیاست دان کو اچھا ٹف ٹائم دیا۔
یہ مقابلہ دور سے کملا کی جھولی میں گرتا محسوس ہو رہا تھا لیکن گرا ٹرمپ کے دامن میں اور دوبارہ انھیں صدارتی کرسی کا تحفہ مل ہی گیا۔ اس میں ٹرمپ کی اچھی قسمت کا عمل دخل ہے یا کملا ہیرس کی بدقسمتی کا۔ لیکن یہ فیصلہ تو طے ہوچکا تھا کہ اس بار یہ کرسی ٹرمپ کی رہے گی۔’’
بات دراصل یہ ہے کہ کملا ہیرس کو امریکی عوام قبول ہی نہ کرتے اس لیے کہ وہ دونوں جانب سے مکمل امریکی نہیں تھیں۔ ایک جانب باپ یہودی تو دوسری جانب ماں ہندو۔‘‘سب کی اپنی اپنی آراء تھی خیالات تھے لیکن اب مطلع صاف ہو چکا ہے کون کہاں تھا اورکہاں ہے یہ حالات پر منحصر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پرائی جنگوں میں اترنے کے مخالف ہیں اور پرائی جنگوں پر رقم خرچ کرنا پسند نہیں کرتے جب کہ بائیڈن نے غزہ اور یوکرین میں میدان جنگ سجانے کے پورے اہتمام کیے تھے۔
اگر یاد ہو تو ٹرمپ کے 2017 سے 2021 تک کے دور حکومت میں انھوں نے بھارت کو خاصا تنگ کیا تھا۔ کاروباری حلقوں میں بھارت کے خلاف سیاسی پابندیوں کو خاصا ناپسند کیا گیا تھا۔آج دوبارہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے معتبر اور اہم عہدے پر فائز ہو چکے ہیں، دنیا بھرکی نظریں ان پر جمی ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، کیا رائے رکھتے ہیں؟ دنیا ان کی ایک ایک بات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
وہ کس کو اپنی حکومت کے اہم امور کے لیے منتخب کر رہے ہیں، یہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے کہ اس سے ان کے اندر اور باہر کی تصویریں عیاں ہوتی ہیں۔ دنیا کو یاد ہو یا نہ ہو لیکن جن پر گزری تھی انھیں سب یاد رہتا ہے۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اسے بیاہ کر لے جائیں اگر ٹرمپ آگیا تو بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘یہ وہ دور تھا جب کھل کر عیاں ہو چکا تھا کہ ٹرمپ کو باہر سے آئے لوگ خاص کر مسلمان آنکھوں میں کھٹکتے ہیں وہ تعصب پسند ہیں اور مسلمانوں سے انھیں خاص عناد تھا یہ 2017 سے پہلے کی بات ہے۔
اسی مذہب کارڈ کو انھوں نے کھل کر استعمال کیا تھا اور امریکی عوام نے ان کے اس جذبے کو سراہتے ہوئے انھیں ووٹ دیے تھے اور یوں وہ صدارتی کرسی تک پہنچے تھے۔ایک دلچسپ پہلو بائیڈن کے حوالے سے بھی ابھرا تھا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ بظاہر کھلے دل کی صدائیں لگانے والے بائیڈن جب اپنے اوپر قاتلانہ حملے سے بچ گئے تھے تو ان میں ایک تاثر ابھرا تھا کہ گاڈ نے انھیں اس بڑے حملے سے کیوں محفوظ رکھا تاکہ وہ پوری دنیا میں۔۔۔بات تین نقطوں پر سمٹ جاتی ہے، انسان کی سوچ مذہب پر آ کر رک جاتی ہے اور بائیڈن کی یہ سوچ یوکرین اور غزہ کے محاذوں پر نظر آنے لگی تھی۔
امریکا پرائی آگ میں محض بائیڈن کے رویے کو ’’ اوکے‘‘ کہتے کود پڑا تھا اور اب بھی جب کہ نیتن یاہو کو ان کے اپنے نفرت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، دوستی جاری ہے۔ جنگ ابھی رکی نہیں، اسلحہ اور گولہ بارود کا ایندھن بھیجا جا چکا ہے کہ اب بھی معصوم بچے، خواتین اور بزرگ اس آگ کا شکار ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح نظر آ رہا تھا کہ کملا ہیرس اسے شکست دے سکتی ہیں، ون ٹو ون محاذ پر ٹرمپ کی چرب زبانی کام نہ آئی تھی وہ پھیل جاتے تھے، ماضی میں ان کی حماقتیں ان کو اعلیٰ منصب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے بہترین معاون ثابت ہو رہی تھیں۔ یہ بات دور دراز تک پھیل چکی تھی کہ کملا جیتنے والی ہیں۔
کون ان کی جیت پر خوش تھا، پر بھارت میں ان کے لیے خاص کر تامل ناڈو کے اس دور دراز گاؤں میں پوجا جاری تھی۔کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی کافی ہوتا ہے اور پھر ٹرمپ کو اپنی آنکھ کھٹکتی یاد آتی اور وہ مسلمانوں کے حلقے کی جانب بڑھے۔ یہ ایک اور موقعہ تھا جو قدرت کی جانب سے ان کو مہیا کیا گیا تھا۔
مسلمانوں کے حلقوں میں ان کا خیر مقدم کیا گیا اور بازی پلٹتی دکھائی دی۔آج ٹرمپ اپنی بھرپور جیت کے ساتھ براجمان ہیں، وہ اپنے حکومتی امور کے لیے اپنی ٹیم کا انتخاب کر چکے ہیں۔ ایسے میں تلسی گبارڈ کا نام بھی نظر آتا ہے جو سابق رکن کانگریس ہیں اور امریکی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
یہ تلسی گبارڈ وہی ہیں جو پاکستان اور امریکا کے درمیان تناؤ کو ہوا دینے میں پیش پیش رہی ہیں۔ ان کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ جو 2019 مارچ میں لکھی گئی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ:’’جب تک پاکستان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہے گا دونوں ممالک کے درمیان تناؤ رہے گا۔‘‘آج وہی تلسی گبارڈ امریکا کی نئی ڈائریکٹر انٹیلی جنس ہیں جو امریکا کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی۔
امریکی کانگریس میں یہ پہلی ہندو خاتون تھیں، بظاہر تو ان کا تعلق بھارت سے نظر نہیں آتا کیونکہ ان کی والدہ نے ہندو مذہب اختیارکیا تھا، البتہ مودی جی کی یہ پسندیدہ خاتون ہیں۔ یاد رہے کہ گجرات میں مودی کی خوں ریزی پر جب امریکا نے ان کے ویزے پر پابندی عائد کی تھی تو یہ تلسی ہی تھیں جنھوں نے امریکا کے اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا تھا اور اب ان کی اتنی اہم ذمے داری۔۔۔ سوال اٹھاتی ہے۔ ٹرمپ کی یہ کیا سیاسی چال ہے، یہ وقت بتائے گا فی الحال تو سوال ہی سوال ہیں۔