اُستاد دامن نے جب شاعری کی ابتدا کی تو انھوں نے اپنا تخلص ’’ہمدم‘‘ رکھا لیکن جلد ہی اسے ترک کردیا، ان کا پیدائشی نام چراغ دین تھا مگر وہ شعر و سخن کی دنیا میں ’’ اُستاد دامن‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے، وہ 4 دسمبر 1911 کو میراں بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ب
ہت سے مضامین میں دیگر اہل دانش نے لکھ رکھا ہے کہ ’’چراغ دین نام کا یہ دیا جس گھر میں فانوس ہُوا وہاں باپ درزی تھا اور ماں دھوبن۔ سو وہ شعر میں چاک گریباں سیتا تھا اور جلسوں میں دلوں کی میل کاٹتا تھا۔
وضع قطع پہلوانوں سی، سادہ رہن سہن میں ایسی بے نیازی کہ درویش پانی بھریں، علم ایسا بانس ڈباؤکہ ہفت زباں، ہنر ایسا یکتا کہ پنڈت نہرو تڑپ اُٹھے اور طبع ایسی دبنگ کہ نواب کالا باغ کو خاطر میں نہ لائے۔ اُستاد دامن نے نصف صدی تک لوگوں کے درد کو انھی کی زبان بخشی۔‘‘
اُستاد دامن نے شاعری کے آغاز میں عشقیہ شاعری بھی کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ شعورکی بلندیاں طے کرتے رہے اور ان کے کلام میں پختگی آتی گئی ان کا ذہن دنیا، سماج اورکائنات کے دیگر مسائل کی جانب سفرکرتا گیا، کیونکہ ان کا حافظہ حیران کن تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد کچھ شرپسند عناصر نے ان کی ذاتی لائبریری ،دُکان اور مکان کو آگ لگا دی جس میں ان کی ذاتی تحریریں اور دوسری کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں۔
ایسے میں انھوں نے دل برداشتہ ہو کر اپنا کلام لوحِ قرطاس پر اُتارنے کے بجائے اپنے حافظے پر یقین کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا بہت سا کلام ضایع بھی ہُوا مگر ’’ اُستاد دامن‘‘ اکیڈمی کے عہدے داروں نے بڑی محبت اور جدوجہد سے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے ان کے کلام کو اکٹھا کر کے ان کی وفات کے بعد ’’دامن دے موتی‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شایع کیا، تاکہ ان کے چاہنے والے ان کے کلام سے فیض یاب ہوں۔
انھوں نے برطانوی سامراج کے خلاف بے شمار نظمیں لکھیں اور ہر قسم کی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کی شاعری سیاسی اور عوامی جذبات کی عکاس تھی۔ ان کے بارے میں رؤف ظفر بتاتے ہیں کہ ’’ وہ پیشے کے لحاظ سے اپنے والد کی طرح ایک ٹیلر ماسٹر تھے لیکن ان کے اندر کا چھپا ہوا، ایک شاعر باہر آنے کے لیے بے چین تھا۔ ایک بار معروف سیاستدان میاں افتخار الدین ان کی دُکان پر آئے اور ایک سوٹ سلنے کے لیے دیا۔
سوٹ سلنے کے بعد انھوں نے میاں صاحب کو اپنی ایک نظم سنائی جو انھیں بہت پسند آئی۔ جس پر انڈین نیشنل کانگریس کے زیر اہتمام ایک عوامی جلسہ میں انھیں وہیں نظم سنانے کو کہا۔ اُستاد دامن کے لیے یہ عوامی جلسہ زندگی کا انقلابی موڑ ثابت ہُوا۔ ان کی نظم ’’ہٹ‘‘ ہوگئی اور وہ راتوں رات گوشہ گمنائی سے نکل کر شہرت کی راہ پرگامزن ہو گئے۔‘‘
اس کے بعد مزید ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، یوں انھوں نے سیاسی جلسوں میں نظمیں پڑھنے کا آغازکیا۔ اس طرح ان کی شاعری زبان زد عام و خاص ہوگئی اور اُستاد دامن ہر مکتبہ فکر کے پسندیدہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوتے چلے گئے،کیونکہ انھیں شاعری کاشوق بچپن سے ہی تھا مگر انھوں نے باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد ہی کیا۔
انھوں نے میٹرک کا امتحان دیو سماج اسکول سے پاس کیا، جب کہ ان کے بارے میں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’’دامن‘‘ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بہرحال میں اس بحث و مباحثہ میں نہیں پڑنے والا اس لیے کہ میں نے ان کو پڑھتے ہوئے تاریخِ ادب کی جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، اُن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُستاد دامن پنجابی اور اُردو کے علاوہ سنسکرت،گرمکھی، عربی، فارسی، روسی، انگریزی اور ہندی زبانوں سے بھی آگاہ تھے۔
دوسری طرف یہ بھی بات سامنے آتی ہے کہ بچپن میں ہی اُستاد دامن نے گھریلو حالات کے پیشِ نظر تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کا کام بھی کرنا شروع کیا۔ جب ان کی عمر تیرہ برس ہوئی تو ان کا خاندان چوک متی سے باغبانپورہ منتقل ہوگیا۔
وہاں درزی کی دکان شروع کی۔ ان تمام تر باتوں کا احوال آپ قارئین کو پنجابی کے معروف شاعر،کالم نگار تنویر ظہورکی کتاب ’’اُستاد دامن‘‘ اور اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام ’’اُستاد دامن کی فن و شخصیت ‘‘ جسے ڈاکٹر امجد علی بھٹی نے لکھا ہے میں ملتا ہے۔اُستاد دامن خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، بظاہر ان کی سادگی اور درویشی کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ ایک کثیر المطالعہ شخص تھے، وہ پنجابی شاعری کی فنی خوبیوں پر اس قدر ملکہ رکھتے تھے جس کی بدولت اہل علم وفن افراد سے ’’اُستاد‘‘ کا خطاب حاصل کیا۔
تقسیم پاک وہند کے بعد جب پہلی بار پاک بھارت مشاعرہ کا انعقاد ہُوا تو اس مشاعرے کی صدارت اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کر رہے تھے۔ اس مشاعرے میں اُستاد دامن بھی شریک تھے تب انھوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم پڑھی ’’بھاویں مونہوں نہ کہیے پروچو وچی‘‘ جس پر پنڈت نہرو نے انھیں ’’آزادی کا شاعر‘‘ کا خطاب دیا اور ساتھ ہی انھیں ہندوستان کی شہریت دینے کی پیشکش کی مگر اُستاد دامن نے ان کی اس بات کا کیا خوبصورت جواب دیا کہ ’’میں پاکستان وچ رہواں گا، بھاویں جیل وچ رہواں۔‘‘
انھوں نے ’’ہیر رانجھے‘‘ کی داستان کو اپنے مخصوص انداز میں لکھ کر پنجابی شاعری کے ذخیرے میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ ویسے وہ مشاعروں اور عوامی جلسوں میں تقریروں پرگرفت کے معاملے میں بھی بے تاج بادشاہ تھے۔
میرے نزدیک اُستاد دامن مزدوروں،کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے، وہ اپنے روحانی مرشد شاہ حسینؒ کی روایت کے پیروکار تھے۔ جس طرح شاہ حسینؒ ،مغل اعظم جلال الدین محمد اکبرکی بے شمار خواہش کے باوجود شہنشاہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے، ایسے ہی اُستاد دامن کا بھی حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔
انھوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کو بلا خوف و خطر للکارا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب حبیب جالب کو گورنر پنجاب نواب کالا باغ نے اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے کے تحت جیل میں ڈالا تو اُس وقت شہرِ لاہور سے میدان میں آنے والے واحد شاعر اُستاد دامن تھے، جس پر انھیں بھی گرفتار کر کے دہشت گردی کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ انھیں حبیب اور فیض سے بہت محبت تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر کسی نے میرا اُردو ایڈیشن دیکھنا ہو تو وہ حبیب جالب کو دیکھ لیں۔‘‘
اُستاد دامن نے انقلابی اور سیاسی شاعری کے علاوہ صوفیانہ اور ’’ ہیر‘‘ بھی لکھی۔ جسے پنجابی شاعری کے ذخیرے کا بیش قیمت اضافہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے جن میں سے ’’ مینوں دھرتی قلعی کرا دے‘‘ اور ’’ نہ میں سونے دی نہ چاندی دی نہ پیتل پری پرت‘‘ بے حد مقبول ہوئے۔
دامن اپنے دامن میں بہت سے پھول کھلائے ہوئے تھے جن کی خوشبو کو آج بھی تاریخِ ادب کی کتابوں میں محسوس کیا جاتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں پنجابی ادبی تاریخ میں صفِ اول کے شاعر تھے۔ فلم اسٹار علاؤ الدین ان کے منہ بھولے بیٹے کا انتقال ہُوا تو ان کی کمر ٹوٹ گئی، جس سے وہ کافی علیل ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد فیض احمد فیض بھی انتقال کر گئے، جس پر وہ بیماری کی حالت میں بھی ان کے جنازے پر پہنچے تب لوگوں نے دامن کو دھاڑیں مارتے روتے دیکھا۔
فیض کا انتقال 20 نومبر1984 میں ہُوا اور اسی دن سے لے کر دامن کی ہمت جواب دیتے ہوئے آخرکار 3 دسمبر1984 کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور اپنی وصیت کے مطابق مادھو لال مزارکے احاطے میں واقع قبرستان میں دفن ہوئے۔ اُستاد دامن کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 36 برس بیت گئے، مگر اُن کی یادیں اور باتیں اُن کی شاعری کی صورت میں آج بھی زندہ ہے اور ہمارے بعد بھی زندہ رہے گی۔ بقول ان کے:
ماری سرسری نظر جہان اندر تے زندگی ورق تھلیا میں
دامنؔ ملیا نہ کوئی رفیق مینوں، ماری کفن دی بقل تے چلیا میں