بچپن کی محرومیاں وحشی بھوک پیدا کردیتی ہیں

 بچپن کی محرومیاں اور چیزوں کی قلت انسان کے اندر ننگی اور وحشی بھوک پیدا کر دیتی ہیں



’’فلسفہ کی تسلی‘‘ بوتھیئس کی ایک فلسفیانہ تصنیف ہے، جسے 524 عیسوی کے آس پاس لکھا گیا جب وہ قید میں تھا اور پھانسی کا انتظارکر رہا تھا۔ متن کو بوتھیئس اور لیڈی فلاسفی کے درمیان مکالمے کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے، جو فلسفے کی ایک ایسی شخصیت ہے جو مایوسی کے وقت میں اسے تسلی دیتی نظر آتی ہے۔

کام کے آغاز میں، بوتھیئس اپنی بدقسمتیوں پر اپنے غم اور غصے کا اظہارکرتا ہے، محسوس کرتا ہے کہ اسے ترک کردیا گیا ہے اور ناانصافی کی گئی ہے۔ لیڈی فلسفہ دولت، شہرت اور طاقت کی عارضی نوعیت پرگفتگو کرتے ہوئے سکون اور حکمت فراہم کرنے کے لیے پہنچی ہے، وہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقیقی خوشی اور سلامتی اندر سے آتی ہے اور بیرونی حالات پر منحصر نہیں ہوتی۔

پورے مکالمے کے دوران، بوتھیئس گہرے موضوعات کی کھوج کرتا ہے جیسے قسمت کی نوعیت، برائی کا مسئلہ اور آزاد مرضی اور خدائی پیشگی علم کے درمیان تعلق۔ اس کا استدلال ہے کہ اگرچہ خوش قسمتی عارضی خوشی لا سکتی ہے، لیکن یہ بالآخر عارضی اور ناقابل اعتبار ہے۔

لیڈی فلسفہ اسے سکھاتا ہے کہ وجود کی نوعیت کو سمجھنا اور خود کو عقل کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ایک زیادہ مستحکم اور بھرپور زندگی کا باعث بن سکتا ہے۔’’ فلسفہ کی تسلی‘‘ کا مغربی افکار پر خاص طور پر قرون وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے دوران خاصا اثر رہا ہے۔

یہ Stoicism، افلاطونیت اور ابتدائی عیسائی فکر کے عناصرکو یکجا کرتا ہے، اسے فلسفہ کی تاریخ میں ایک بنیادی متن بناتا ہے۔ یہ کام آج بھی انسانی حالت کے بارے میں اپنی بصیرت اور زندگی کے چیلنجوں کے درمیان حقیقی خوشی کے حصول کے لیے متعلقہ ہے۔

 بچپن کی محرومیاں اور چیزوں کی قلت انسان کے اندر ننگی اور وحشی بھوک پیدا کر دیتی ہیں پھر وہ اپنی بقیہ زندگی اس بھوک کو مٹانے کے لیے اسے جتنا کھلاتا رہتا ہے وہ اتنی اور بڑھ جاتی ہے وہ اور کھلاتا ہے وہ اور بڑھ جاتی ہے اور پھر ایک روز وہ بھوک اس کو نگل جاتی ہے۔

ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران سے لے کر ہمارے ملک کے تمام اہم کرداروں کی اکثریت سب کے سب اسی بھوک کا شکار ہیں، بھوک کے شکار بظاہر آپ کو نارمل انسان نظر آئیں گے لیکن اصل میں یہ سب کے سب مریض ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنا علاج کرتے اور اپنی تکلیفوں کو بڑھاتے اور پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی اتائی نسخہ ہاتھ آجائے گا اور وہ اچھے ہوجائیں گے۔

مگر ان کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے، ان کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ درحقیقت ایک ہائڈر اگار جیاس کا سرکاٹ رہے ہیں۔ یاد رہے یونانی ضمیات میں ہائڈرا اس سانپ کو کہتے ہیں جس کے ایک سرکے کاٹنے کے ساتھ بہت سے اور سر پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھوکے اپنے آپ کو جتنا پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنے ہی اور ادھورے ہوجاتے ہیں۔

 قصہ مشہور ہے کہ جب عظیم رومی شہنشاہ مارکیوز اورلیوس کا انتقال ہوا تو اولمپائی دیوتاؤں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں اس کے دائیں طرف شہنشاہ اگٹس، طبرس اور ویسپا سین بیٹھے تھے جب کہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ براجمان تھے۔

ان میں نروا، ٹراجن، ہڈرین اور اس کا سوتیلا باپ انٹونی نس پیوس شامل تھے نیرو اورکیلی گلا کو البتہ دروازے پر ہی روک لیا گیا تھا۔ اس ضیافت میں دیوتاجیو پیٹر نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے؟

یہ سب شہنشاہ امیدوار تھے وہ باری باری اٹھے اور انھوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں، اکثر نے اپنی اپنی فتوحات کی شیخیاں بگھاریں پھر مارکیو ز اور لیوس کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا اس نے بس یہ کہا کہ ’’ میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ‘‘ کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ مارکیو ز اور لیوس کے یہ الفاظ سننے کے بعد اس کو عظیم ترین رومی مان لیا گیا، مگر اس کو عظیم ترین انسان نہیں کہا گیا کیونکہ اس تمنا کی تکمیل کی راہ میں فلسفی مارکیوز اور لیوس کو شہشاہ مارکیو ز اور لیوس نے روک لیا تھا۔

انسان اطمینان، خوشی، سکون اور سکنیت کے لمحوں کے حصول کی خاطر شروع ہی سے بھٹک رہا ہے اور مسلسل نامرادی و ناکامی سے دوچار ہے کیونکہ وہ زندگی کے اصل فلسفے کوکبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے، زندگی کی سب سے اہم ترین بنیادی بات جسے ہر وقت یاد رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اس بات کو ہم سب سب سے پہلے غیر ضروری بات سمجھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہم سب بھکاری اور گداگرکے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں۔

1775 کے بہارکے دنوں میں دوستوں کو جب معلوم ہوا کہ عظیم فلسفی ڈیوڈ ہیوم ان سے جدا ہونے والا ہے تو وہ اس کو آخری احترامات پیش کرنے کی خاطر جمع ہوئے، ان میں سے اکثر دل ہی دل میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ ہیوم اپنے آخری سفرکی تیاری کس انداز میں کرتا ہے۔ ’’ مجھے فکر یہ ہے کہ ‘‘ اس نے دوستوں کو بتایا ’’ میں قیرون ملاح سے کیونکر ملوں گا، جو مردہ روحوں کو دوزخ کے دریا کے پار پہنچاتا ہے، میں اس جہان میں تھوڑے سے زیادہ قیام کے لیے کیا بہانہ کروں گا؟

میں اس سے التجا کروں گا کہ ’’ اے نیک دل قیرون ! ذرا صبرکرو تھوڑی دیر مجھے یہاں رہنے دو۔ برس ہا برس سے میں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہوں۔

زندگی کے چند سال اور مجھے مل جائیں تو مجھے ان توہمات کا خاتمہ دیکھنے کی تسلی ہوجائے گی، جن کے خلاف میں لڑتا رہا ہوں لیکن یقینی بات ہے کہ قیرون میری التجا سن کر برافروختہ ہوجائے گا اور غصے سے چلائے گا۔‘‘ ’’ او خوابوں میں گم رہنے والے لا علاج شخص تمہاری خواہش کبھی پوری نہ ہوگی تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کہ اس بہانے میں تمہیں ایک زندگی دے دوں گا او کاہل آوارہ گرد اور احمق رجائیت پسند فورا میری کشتی میں بیٹھو۔‘‘ یاد رکھو جب جانے کا وقت آن پہنچا ہے تو کشتی کبھی بھی خالی واپس نہیں جاتی ہے اور جب انسان کشتی میں بیٹھاآخری سفرکررہا ہوتا ہے تو اسے اپنی گزاری ہوئی زندگی کی ساری باتیں، ساری غلطیاں، ساری زیادتیاں، سارے ظلم وستم، ساری ناانصافیاں ایک ایک کرکے یاد آرہے ہوتے ہیں۔

ساری عیش وعشرت، ساری لذتیں ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہوتی ہیں جن کی خاطر وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو ذلیل و خوارکرتا رہا انھیں اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتا رہا۔ انھیں بے چین اور تنگ کرتا رہا لیکن بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ بھوک اس کو نگل چکی ہوتی ہے۔

وہ جھوٹی شان و شوکت، وہ ہیرے جواہرات کے ڈھیروں، زمینیں اور جاگیریں اور ملیں جنھیں وہ چھوڑ آیا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے اور غیرگدھوں کی طرح ان چیزوں کو نوچ رہے ہیں حقیر اشیاؤں کو جو ازل سے حقیر ہیں اور ابد تک حقیر ہی رہیں گی۔ وہ بھی وہ ہی غلطیاں شروع کرچکے ہیں جو وہ کرکے آرہا ہے۔ زندگی کا اصل فلسفہ تب ہی شروع ہوتا ہے جب ذہن انسانی مڑکر اپنی طرف دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو پہنچانتا ہے، جب ہی سقراط کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو۔ اس لیے خدا کے واسطے میرے دوستوں اپنے آپ کو پہچانو، کشتی میں بیٹھنے سے پہلے پہلے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں