اگرچہ آئین کی رو سے بھارت ایک سیکولر ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو رہا اور آئین کی سراسر خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی تازہ ترین مثال اُتر پردیش کے قصبہ سمبھل میں ایک تاریخی مسجد کو شہید کیا گیا ہے۔
یہ عالیشان مسجد مغل حکمران شہنشاہ بابر نے 1520 میں تعمیرکرائی تھی۔ اِس مسجد کی شہادت سے بھارتی مسلمانوں میں غم و غصے کی ایک شدید لہر دوڑ گئی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹنے کا زبردست خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اِس سانحے کا ذمے دار ایک انتہا پسند ہندو وکیل ہے جس کا تعلق بھارت کی بدنام زمانہ سیاسی جماعت آر ایس ایس سے ہے۔ یہ وہی آر ایس ایس ہے جس کی بنیاد 1925 میں تعصب بھرے زہریلے ناگ گُرو گول والکر نے ناگ پور میں رکھی تھی۔
بھارت میں اب تک جتنے بھی مسلم کُش فسادات ہوئے ہیں ان کی تمام تر ذمے داری آر ایس ایس پر ہے۔ بھارت کی حکمراں پارٹی بی جے پی نے اِسی جماعت سے جنم لیا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اب وہ دیگر مساجد کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بھارت کے مسلمانوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
بھارت کی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 کے دوران بھارت میں مسلم کُش فسادات کی تعداد 823 تھی جس میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو کس بے دردی اور سفاکی کے ساتھ نفرت اور تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے اُن کے لیے زندگی گزارنا عذاب بن گیا ہے۔
اُتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے مسلم کُش فسادات میں نہتے اور بے قصور مسلمانوں کا بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا گیا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے بے بس انسانوں پر بھوکے بھیڑیے چھوڑ دیے گئے ہوں۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ انھوں نے بلوائیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔جب بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں مسلمانوں کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
مسلمان جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہیں مزید معاشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں پر روزگار کے دروازے بند ہیں۔ جہاں تک سرکاری ملازمتوں کا تعلق ہے تو ان میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے خواہ مسلمان کتنے ہی لائق و فائق کیوں نہ ہوں۔
فسادیوں کو مادر پدر آزادی حاصل ہے اور انھیں مسلمانوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا ذرا بھی احساس نہیں اور وہ مسلم خواتین کی آبرو ریزی بھی کرتے ہیں۔ فسادات کی سنگینی کا اس حقیقت سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 150 سے زیادہ دیہات کے مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ لینے کے لیے نکلنا پڑا اور آج تک نہیں معلوم کہ ان کا کیا بنا۔
بھارت میں مسلم کمیونٹی کے حالات ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیاں نافذ کی ہیں جس میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ تفریق کو کھلم کھلا روا رکھا گیاہے۔ فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے دنگوں میں 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 17 کروڑ کے لگ بھگ ہے جب کہ درحقیقت یہ آبادی اِس سے بھی زیادہ ہے۔ بھارتی مسلمان کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسرکررہے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیںہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ حالت یہ ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، جائیں تو جائیں کہاں۔