اسلام، شریعت اور جدیدیت

اسلام ہمیں جدیدیت کو مثبت طریقے سے اپنانے کا حکم دیتا ہے


ویب ڈیسک December 06, 2024

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

شریعت کس کے تابع ہو، قدیم فقہاء کی یا جدید فقہاء کی فہم کے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کی اسلامی دنیا کے سامنے ہے، اور اس کی سب سے بڑی مثال آج افغانستان بھی ہے۔ پہلے خواتین کی تعلیم پر پابندی اور اب ٹی وی پر بھی پابندی، صرف ریڈیو ہی ترسیل کا ذریعہ مانا جائے گا۔ ان کے نزدیک دین قدیم فقہاء کی تشریح کا نام ہے یا قدیم فقہاء کی فہم کا؟

اور بہت سے ممالک بھی اسی کشمکش میں کسی نہ کسی طرح سے پھنسے ہوئے ہیں، جن میں ہم بھی شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، آئے دن کوئی نہ کوئی جدیدیت مسلمانوں کےلیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ اگر جدیدیت کو قبول کرنا اسلام میں شامل نہ تھا تو پھر رسول اللہؐ نے حضرت معاذ کی ’’اجتہاد‘‘ والی بات کو پسند کیوں فرمایا؟ اور آپؐ نے اپنے ہاتھ ان کے سینے پر مارے اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جس نے رسول کے قاصد کو یہ توفیق دی جس سے اللہ کے رسول بھی راضی ہوئے ہیں۔

اسلام کے احکام کی تشریح میں ’’اجتہاد‘‘ کا دروازہ کیوں رکھا گیا ہے؟ اس لیے کہ بدلتے دور کے ساتھ اسلام کے ماننے والوں کو اس پر عمل کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو، اور اسلامی تعلیمات کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام پر عمل درآمد کیا جاسکے۔

اسلام مجموعہ ہے قرآن و حدیث کا۔ اور ان میں موجود احکام کا مفہوم نافذ کرنا انتہائی احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔ لغت کے ساتھ ساتھ اصطلاح میں کیا رائج ہے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں فرمان ہے ’’اور ان کےلیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے کہ ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ‘‘ (انفال) آج کے ایٹم کے دور میں یقیناً گھوڑوں سے مراد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے اور اسی پر علماء متفق ہیں۔ ایسی سیکڑوں احادیث بھی ہیں جن کا اصطلاحی مفہوم ہی لیا گیا ہے، الفاظ کے ساتھ چمٹا نہیں گیا اور یہی اجتہاد کی منشاء بھی ہے۔

جدیدیت کو اپنانا اسلام کے منافی نہیں، بلکہ اسلام تو ہمیں جدیدیت کو مثبت طریقے سے اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں کی منافقت ہے کہ جس چیز میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اسے اپنا لیتے ہیں اور جس چیز کو ان کی انا گوارا نہیں کرتی اسے اسلام کے منافی کا فتویٰ دے کر اس کا رد کردیتے ہیں۔ اس اقرار و انکار میں اسلام کس حد تک شامل ہوتا ہے یہ تو قرآن و سنہ کو پڑھ کر اور ان کے مفاہیم کو سمجھ کر ہی پتہ چلے گا۔

رسول اللہؐ کے دور میں جدت پسندی کو پسند فرمایا اور جدید حکمت عملیوں کو اپنایا گیا، ان میں ایک مثال غزوہ احزاب کے موقع پر پیش کی جاسکتی ہے جس میں حضرت سلمان فارسی کی تجویز پر عمل کیا گیا، جس میں خندق کھود کر دشمن سے دفاع کیا جاتا تھا جبکہ عرب اس سے بالکل ناآشنا تھے۔ آپؐ نے اس تجویز کو قبول فرمایا اور اس تجویز میں ہی رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو برکت دی اور مسلمان تمام عرب کے خلاف اس جنگ کو جیت سکے۔

اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام جدیدیت کے خلاف ہرگز نہیں۔ یہ تو سراسر ذہنی پسماندگی کی مثال ہوگی کہ جدیدیت کو رد کیا جائے۔ اسلام پسماندہ دین نہیں بلکہ جدیدیت کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ دور جنگ کے جدید آلات بھی رسول اللہ کے دور میں متعارف کروائے اور اپنائے بھی گئے، اس میں منجنیق اور دبابہ کے نام سے ہتھیار ہیں جنہیں جدید حکمت عملی ہی کہا جائے گا۔

حقیقت میں دین اسلام میں دائمی ماننے والے صرف دو ماخذ ہیں قرآن اور سنہ، اس کے علاوہ کسی کو دائمی نہیں مانا جاسکتا۔ اگر ہم رسول اللہ کے کسی امتی کے اجتہاد یا احکام کو دائمی حیثیت دیتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے فہم کو ہم قرآن و سنہ کے مقابل لے آتے ہیں۔ ایسا کرنا مکمل طور پر حرام ہے۔ اجتہاد اصل میں شریعت (قرآن و سنہ) کا فہم ہے۔ یہ شریعت کی طرح مستقل نہیں بلکہ فہم جدیدیت کے ساتھ ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے، لیکن شریعت کے اصول کے تابع رہتے ہوئے جدید مسائل کے حل میں فہم بھی جدید ہی اپنایا جائے گا۔

دور جدید کی جدیدیت کو اپناتے ہوئے فہم یا اجتہاد میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ قرآن و سنہ کے تابع ہو، نہ کہ کسی بھی عالم کے۔ اگر ایسا کرنا شروع کردیا تو ہم دین کو محدود کردیں گے، جدید تقاضوں کو اپنا نہ سکیں گے۔ اسلام کی تبلیغ و تشریح کیسے کرپائیں گے؟ یہ تو بذات خود اسلامی تعلیمات کے منافی ہوجائے گا آیا کہ اس سے اسلام کی ترویج ہو پاتی۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ ہر دور کے علماء اجتہاد کریں گے اور اس دور کے عوام ان کا اتباع کریں گے۔ دور بدلنے کے ساتھ حالات و واقعات کی تبدیلی میں اجتہاد کی تبدیلی بھی ناگزیر ہوجائے گی۔ آنے والے ادوار کے عوام اس بات کے ہرگز متقاضی نہیں کہ وہ پہلے اجتہاد کی تقلید کریں۔ آج کے دور کے اگر مسائل حل کرنا ہے تو دور حاضر کے علماء کا فرض ہے کہ وہ اسلامی احکامات کی روشنی میں اجتہاد کریں، اور عوام اس کو مانیں، نہ کہ دور قدیم علماء کے اجتہادات لے کر چلیں۔

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز بری نہیں ہوتی اس کے استعمال کے طریقہ اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ لہٰذا جدیدیت میں ہر وہ چیز جو احکام اسلامی سے ٹکر نہیں کھاتی بلکہ اس کے استعمال سے اسلام کو ہی فائدہ ہوتا ہے تو اس کو اپنانا لازم ہوجاتا ہے۔ آج ریڈیو کون سنتا ہے؟

ٹیکنالوجی استعمال کیے بغیر ہم دنیا تک اسلام کا صحیح مفہو م کیسے پہنچائیں گے؟ کیسے انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف دعوت دیں گے کہ یہی دین تو دین رب ہے۔ ٹیکنالوجی ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بنا پر ہم اسلام کی تبلیغ کرسکیں گے۔ انہیں بتا سکیں گے کہ اسلام دہشت گرد مذہب نہیں، اسلام عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔

اسلاموفوبیا کا مقابلہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ہی ہوسکے گا نہ کہ اس کو ممنوع قرار دے کر ہم دشمنوں کو اور موقع فراہم کریں کہ وہ اسلام دشمنی کی آڑ میں جھوٹا پروپیگنڈا کرکے ہمارے دین کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائیں۔

قدیم فقہاء نے پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے دور کے حالات و واقعات کے مطابق احکام اسلام کی تشریح کی، جیسا کہ اس دور کے حالات کے متقاضی تھا۔ دور بدلنے کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بدلتے ہیں، اور ان مسائل کے حل کےلیے دور جدید کے فقہاء کو میدان میں آنا ہوگا۔ قرآن و حدیث کے تابع رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل دینا ہوگا، نہ کہ لوگوں کو ہر وقت یہی تبلیغ کی جائے کہ دور قدیم کے فقہاء کی تعلیمات کے ساتھ چپکے رہو۔ یہ رویہ بذات خود اسلامی روح کے منافی ہے۔ اجتہاد کا دروازہ اسی لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ اسلام کے ماننے والوں کے بدلتے حالات کے ساتھ اسلام پر عمل کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے، بلکہ وہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں