قومی آمدنی میں چوری کا ایک بہت بڑا راستہ بند کرنے کا بندوست کر لیا گیا ہے، چوری کا کون سا راستہ بند ہوا ہے اور کیسے؟ اس وقت بات تو یہی کرنی ہے لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
اس میں ایک بیان تو دل کے رشتوں کی کہانی کا ہے اور ایک کہانی احساس فرض شناسی کی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ سفر ہو یا حضر، کام کرنے والے کو اپنے کام کی لگن ہر دم ہی رہتی ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ہی اس کہانی کا بھی ہے جس کا اندازہ عطا اللہ تارڑ سے ایک ملاقات میں ہوا لیکن اس سے پہلے تھوڑا سا ذکر 5 دسمبر کا۔
یہ دن ہمارے ترک بھائیوں کے لیے بہت خاص ہے۔ وہ اسے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ مناتے ہیں۔ بھائی ڈاکٹر خلیل طوقار جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں، ان کے ساتھ ایک تہذیبی ہل چل بھی آتی ہے۔ کبھی وہ ہمیں ہماری تحریک آزادی کی کہانی کے وہ حصے سناتے ہیں جنھیں ہم فراموش کر چکے جیسے ٹیپو سلطان شہید۔ ہم آپ تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہمارے اس دلیر جاں باز نے دشمن کو للکارا اور شیروں کی طرح لڑتا ہوا آزادی کی دیوی پر قربان ہو گیا لیکن ہمارے اس جی دار اور غیرت مند سلطان نے اس لڑائی کے لیے کیا کیا کشٹ کیے؟ سر زمین ترکیہ اس کی کیا کہانی بیان کرتی ہے؟ یہ کہانی ہمیں ڈاکٹر خلیل طوقار سناتے ہیں۔
کبھی وہ بتاتے ہیں کہ وہ کون سے ثقافتی مظاہر ہیں جو بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ترکیہ ہیں تو دو خطے لیکن ثقافت کی یہ یک جائی انھیں ایک جیسا بنا دیتی ہے، یک جان دو قالب کر دیتی ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہمارے ڈاکٹر صاحب نے کیا کہ اپنے افکار کی روشنی سے دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دینے والا اقبال ایک نہیں دو تھے۔ ایک اقبال تو وہی ہیں جنھیں ہم جانتے ہیں یعنی شاعر مشرق اور مصور پاکستان لیکن ہمارے ترکیہ میں اقبال کے ایک ہم زاد بھی تھے جو اقبال ہی کی طرح سوچتے اور اقبال کی طرح ہی شاعری کرتے۔
تو پاکستان ٹیلی ویژن میں اس روز ترکیہ کا یوم کافی منایا گیا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی شریک ہوئے۔ سیکریٹری اطلاعات محترمہ عنبرین جان، پی ٹی وی کے ڈائریکٹر اسپیشل انی شی ایٹو دانیال گیلانی کا جوش و خروش بھی دیکھنے والا تھا۔ دوسری طرف ترکیہ کے تعلیمی اتاشی محمت طوئران اور ڈاکٹر ایرن میاس اولو جلوہ آرا تھے جب کہ ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نیوز ہارون الٰہی طور، ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز سلیم چوہدری اور میڈم الماس بھی بڑے اخلاص کے ساتھ تقریب میں شریک تھے۔
ممتاز نوجوان خطاط واصل شاہد کے حسن انتظام نے تو تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ خیر بات یہ ہے کہ تقریب کے شروع ہوتے ہوتے جواں سال عطا اللہ تارڑ سے چند منٹ بات کرنے کا موقع مجھے مل گیا۔ کچھ اور صحافی دوست ہوتے تو وہ جانے کیسا کیسا سوال کرتے اور دور کی کون کون سی کوڑی لاتے لیکن میں اگرچہ شہر میں پیدا ہوا اور شیروں میں ہی پلا بڑھا لیکن اپنی اصل سے رشتہ آج تک برقرار ہے۔
اسکول کے زمانے کی بات ہے، استاد نے مجھے ایک پروفارما دیا کہ والد سے بھروا لاؤ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اباجی مرحوم نے اس میں پیشے کے خانے میں کاشت کار لکھا۔ وہ چاہتے تو پیشے کے خانے میں طب لکھ سکتے تھے، دوا سازی کے اپنے کاروبار کے بارے میں بھی لکھ سکتے تھے لیکن انھیں اپنی بنیاد سے جڑے رہنا زیادہ پسند تھا لہٰذا جتنی کتنی بھی باقی تھی، اسی کاشت کاری کو اپنے لیے ذریعہ عزت جانا۔ اتنی دہائیاں گزر جانے کے باوجود جب کہ اب میں خود ان کی عمر کے آس پاس پہنچنے والا ہوں، مجھے اپنی اسی بنیاد کی فکر رہتی ہے لہٰذا میں نے پوچھا کہ تارڑ صاحب!دسمبر آ گیا ہے۔ ہمارے کسانوں کا کماد برگ و بار لا چکا ہے۔ حکومت کچھ ان کے مسائل کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے کہ نہیں؟
گنے یا کماد کا معاملہ صرف اتنا تو نہیں ہے کہ کسان ٹرالیاں بھرکے شوگر ملوں کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں۔ گنا سوکھتا رہتا ہے اور مل والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اس کے ساتھ اور بھی بہت سی علتیں جڑی ہوئی ہیں جیسے چینی زیادہ بنانا اور کم ظاہر کرنا، زیادہ بیچنا اور تھوڑی بتانا یعنی ٹیکس چوری کرنا۔ جی ایس ٹی میں ہیرا پھیری کرنا۔ ملک میں مصنوعی قلت پیدا کرنا اور من مانی قیمت وصول کرنا یا اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومتوں کو بلیک میل کر کے چینی برآمد کر دینا اور پھر مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کی جیب کاٹنا۔ غرض بہت سی باتیں ہیں جو اس سفید میٹھے کی ' مٹھاس' سے چپکی ہوئی ہیں۔
عطا اللہ تارڑ سوال سن کر مسکرائے اور کہا کہ خوب یاد دلایا ڈاکٹر صاحب!پھر گویا دبستاں کھل گیا۔ معلوم ہوا کہ گو ہمارے وزیر اعظم صنعت کار ہیں لیکن ذمے داری کے احساس نے انھیں کچھ کا کچھ کر دیا ہے۔ پتہ چلا کہ وزیر اعظم اس معاملے میں تب سے فکر مند اور مصروف تھے جب کسان فصل کی حفاظت کے لیے فکر مند تھا، کٹائی ابھی دور تھی۔
' یہ وسط نومبر کی بات جب وزیر اعظم کے حکم پر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جس کے ذریعے شوگر کی صنعت سے متعلق چوری کے جتنے ممکنہ راستے بھی ہو سکتے تھے، انھیں بند کر دیا گیا ہے۔ ' عطا اللہ تارڑ نے بتایا۔ تارڑ صاحب کے اس انکشاف نے مجھے تجسس میں مبتلا کر دیا کہ معلوم تو ہونا چاہیے کہ اس باب میں ایسا کون سا حکم جاری کیا گیا ہے جو ہمارے سارے دکھ دور کر دے گا۔ باتیں تو اس میں بہت سی ہیں لیکن ایک اہم بات خود یعنی اپنے آپ کو مثال کے طور پر پیش کرنے کی ہے۔
بات یہ ہے کہ شوگر انڈسٹری سے کچھ نہ کچھ تعلق ان کا بھی ہے۔ اس حساب سے دنیا داری تو یہی ہے کہ اس شعبے کے صنعت کاروں کو کھلی چھوٹ ملی رہے اور وہ جو جی چاہے کرتے پھریں لیکن ہوا اس کے برعکس ہے۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کو حکم دیا ہے کہ وہ اس شعبے سے ہیرا پھیری اور ٹیکس چوری کا ہر راستہ بند کر دے۔ اس مقصد کے لیے شوگر ملوں میں کیمرے نصب کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کتنا کماد خریدا گیا، کتنی چینی بنی اور کتنا اسے بیچا گیا۔ یوں گویا اس صنعت کے ہر شعبے اور اس کاروبار کے ہر مرحلے پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے تاکہ عام کسان سے لے کر حکومت اور ایف بی آر تک سب کے استحصال کے تمام راستے بند کر دیے جائیں۔
یہ انتظامات صرف شوگر ملوں کے اندر ہیر پھیر کو روکنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعے ڈیلروں کے منفی ہتھ کنڈوں، سٹے بازی اور ذخیرہ اندوزی کا راستہ بند کرنے کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے۔