اور اب اجمیر شریف درگاہ نشانے پر

بیربل کو بھلا کون بھول سکتا ہے، جو اکبر بادشاہ سے کسی مسلمان درباری سے زیادہ قریب تھا


عثمان دموہی December 08, 2024

بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل 15 سالوں سے بھارت میں حکومت کرتی چلی آ رہی ہے اور لگتا ہے وہ آگے بھی اپنی حکمرانی کو جاری رکھے گی کیونکہ اس کا نفرت کا چورن خوب بک رہا ہے۔ اس نفرت میں وہ وزن پیدا کرنے کے لیے غیرہندووں خصوصاً مسلمانوں کے مقدس مقامات کو متنازع بنا کر عام ہندوؤں کی نظر میں اپنے آپ کو ہندوستان کی سچی ہمدرد جماعت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی قوم کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے یا اس پر کسی قسم کی عمارت مسجد یا مقبرہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے کیونکہ ان کا دین اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔مسلمانوں نے اپنے آٹھ سو سالہ دور میں کوئی زیادتی نہیں کی اور کرتے بھی کیسے کہ ان کے اس عمل سے وہ ہندوستان کی اکثریت کو ناراض کرکے کیسے حکومت کر سکتے تھے ؟

پورے ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت تھی جب کہ مسلمان اقلیت میں رہے ہیں۔ تمام مسلمان بادشاہوں نے غیرمسلموں کو فراخ دلی سے اپنے اقتدار میں شامل کرکے ملک کا نظم و نسق خیر و خوبی سے چلایا ہے۔ اگر ہندوؤں کے مقدس مقامات پر وہ مساجد مقبرے یا تاج محل جیسی عمارات تعمیر کرتے تو ہندو کسی بھی صورت میں خاموش نہ رہتے وہ ضرور بغاوت پر آمادہ ہو جاتے اور بادشاہوں سے تعاون کرنے کے بجائے جنگ و جدل پر اتر آتے۔ ہر مسلمان بادشاہ کے دربار میں ہندوؤں کو اعلیٰ مقام حاصل تھا حتیٰ کہ ملک کا نظم و نسق چلانے کی ذمے داری ہندو وزیر اعظم کی ہوتی تھی۔

بیربل کو بھلا کون بھول سکتا ہے، جو اکبر بادشاہ سے کسی مسلمان درباری سے زیادہ قریب تھا۔ ٹوڈل مل جیسا دانشور بادشاہ کو مفید مشوروں سے نوازتا تھا۔ بادشاہوں کی فوج میں ہندو سپاہیوں کی اکثریت ہوتی تھی جو بادشاہ کے وفادار ہوتے تھے کبھی ان کی بغاوت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا اکثر فوج کے کمانڈر انچیف بھی ہندو ہی ہوتے تھے۔ 

مغل بادشاہوں کی کئی رانیاں تھیں جو اپنے ہندو دھرم پر ہی قائم تھیں جودھا بائی کے لیے تو اکبر نے محل میں ایک مندر تعمیر کرایا تھا جس میں وہ باقاعدگی سے پوجا پاٹ کرتی تھیں۔ کیا یہ ہندو ملکائیں خاموش رہتیں اگر مندروں پر مساجد تعمیر کی جاتیں۔ ہندوؤں کی مسلمانوں سے محبت کا نتیجہ ہی تھا کہ 1857 کی جنگ آزادی میں انھوں نے مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا مگر اس کے بعد سے انگریزوں نے جان لیا تھا کہ جب تک ان دونوں قوموں کے اتحاد کو نہیں توڑا جائے گا وہ ہندوستان پر طویل عرصے تک اور امن سے حکومت نہیں کر سکیں گے۔

اور پھر انھوں نے ہر منافقانہ حربے سے دونوں قوموں کو لڑانا شروع کیا اور مہا سبھائی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی داغ بیل ڈالی جن کے ہندو رہنماؤں کو مسلم کش مہم پر لگا دیا۔ انگریزوں کے کہنے پر ہی اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہندوؤں سے کتابیں لکھوائی گئیں اور پھر انتہا پسند ہندوؤں نے انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں سے نفرت کرنا اور ان کے ساتھ فسادات کا سلسلہ شروع کیا۔

ہندو مسلمانوں میں مزید دراڑ ڈالنے کے لیے ایک انگریز نے اپنی کتاب میں بابری مسجد کے نیچے رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا انکشاف کیا۔ آر ایس ایس انگریزوں کی زیادہ ہی منظور نظر بن چکی تھی اس نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا اور فسادات کو ہوا دینا اپنا وتیرہ بنا لیا تھا بالآخر برصغیر تقسیم ہوا مگر آر ایس ایس کی مسلم دشمنی میں کمی نہ آسکی۔

اس وقت آر ایس ایس اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی بی جے پی نفرت کا سہارا لے کر بھارت پر حکمرانی کر رہی ہے مگر انھوں نے نفرت کا وہی انگریزوں والا فارمولا اپنا رکھا ہے پہلے وہ اس فارمولے کے تحت انگریزوں کو فائدہ پہنچاتے رہے اور اب خود مسلم دشمنی کے فارمولے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بی جے پی کے پندرہ سال سے اقتدار میں برقرار رہنے کی واضح وجہ اس کا مسلم مخالف پروپیگنڈا ہی تو ہے۔

اب تو گاندھی کو گالیاں اور ناتھورام گوڈسے کو ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔ گاندھی بھلے ہی پاکستان کے قیام کو روکنا چاہتا تھا مگر مسلمانوں کو آر ایس ایس کی طرح دشمن نہیں تھا۔ بس آر ایس ایس اور بی جے پی گاندھی سے صرف اس لیے دشمنی ہے کہ وہ مسلمانوں سے ہمدردی کیوں جتاتا تھا جب کہ ان کی ہمدردی محض سیاسی نوعیت کی تھی۔

اس وقت بی جے پی کے دور میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بولنے پر خود حکومت ہمت افزائی کرتی ہے کسی مسلمان کو بی جے پی کے غنڈے قتل بھی کر دیں تو کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ مرنے والے کو ہی الٹا قصور وار ٹھہرا دیا جاتا۔ اب تو وہاں لیڈر بننے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ جو مسلمانوں اور اسلام کی جتنی کڑی توہین کرے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر خیال کیا جاتا ہے اور اسے الیکشن کے وقت پارٹی کا ٹکٹ بھی دے دیا جاتا ہے۔

اس وقت بھارتی سپریم کورٹ کا جو بھی چیف مقرر ہوتا ہے، اسے بی جے پی مسلم دشمن پالیسی کو اپنانا پڑتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مسٹر چندرچور مودی کے خاص آدمی تھے، انھوں نے ہی گیان واپی مسجد کے کیس میں بھارتی آئین کی اس شق کہ آزادی سے پہلے قائم کسی مسجد یا درگاہ کی حیثیت کو نہیں بدلا جائے گا اور نہ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی کے خلاف زبانی یہ حکم دیا تھا کہ اگر کسی مسلم مقدس مقام کو کچھ لوگ متنازع قرار دیں تو اس کی جانچ یعنی کھوج تو ضرور ہو سکتی ہے، بس اسی زبانی حکم جو آئین کے خلاف ہے ،گیان واپی مسجد میں کھدائی کی گئی پھر سنبھل میں ایسا ہوا جس سے دونوں شہروں میں ہندو مسلم خونی فسادات برپا ہوئے جس کا سراسر سیاسی فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ 

اب اجمیر شریف اور جامع مسجد دہلی کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ اس کا دعویدار آر ایس ایس اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والا وشنو گپتا ہے جس نے ہندو نیائے نام کی اپنی مسلم کش تنظیم بنا رکھی ہے۔ وہ پہلے بھی کئی مسلم مقدس مقامات پرالزام لگا چکا ہے۔ وہ مسلم دشمنی میں کافی شہرت رکھتا ہے اب دیکھیے بے چارے بھارتی مسلمان کیا کرتے ہیں؟ کیونکہ اب خواجہ غریب نواز کی درگاہ بھی دہشت گردوں کا نشانہ بننے کو ہے۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں