انتہا پسندی

پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ جانوں اور اربوں ڈالرکا نقصان اٹھا چکا ہے ۔


لطیف چوہدری December 10, 2024

پاکستان میں انتہاپسندی کو کن قوتوں نے، کن مقاصد اور اہداف کے لیے فروغ دیا، اس سوال کا جواب جانے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جتنے مرضی نیشنل ایکشن پلان بنا لیں، پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی تشکیل دیدیں، خصوصی عدالتیں بنا دیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنالیں، اٹھارہویں سے لے کر چھبیسؤں تک آئین میں ترامیم کرلیں، یہ ساری مشق لاحاصل رہے گی۔ ابھی حال ہی میں وفاقی کابینہ نے پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی برائے 2024بھی منظور کی ہے لیکن اس کا جواب بھی کھایا اپیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ذرا سوچیں! پاکستان کے بچوں کو درسگاہوں میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے، اس کے فؤض و برکات سمیٹ کر یہ بچے عملی زندگی میں آتے ہیں تو وہی کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں، جو ہماری بؤروکریسی، عدلیہ، پارلیمنٹ اور بزنس کلاس کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ان پڑھ اور ناخواندہ سادہ لوگوں کو جاہل کا نام دیا جاتا ہے، حالانکہ ان پڑھ ہونا اور جاہل ہونا الگ الگ چیز ہے۔ ہمارے ملک کا جو حشر ہورہا ہے، اس میں ناخواندہ یا ان پڑھ لوگوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ سارا کیا دھرا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااثر لوگوں کا ہے، جتنے بھی تعصبات، امتیازات اورنفرتیں ہیں، ان سب کی آبیاری پڑھے لکھے شاطر دماغوں نے کی ہے۔

 پاکستانی معاشرے کی اجتماعی سوچ، فکر اور کلچر کا انتہاپسندی اور عدم برداشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا ، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر سب کا کلچر روشن خیالی ، رواداری اورایثارو قربانی کے جذبوں سے عبارت ہے۔ پاکستان میں پرتشدد انتہاپسندی کے پس پردہ مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل طاقتور طبقہ ہے جو عوامی رائے، سوچ ، فکر اور کلچر کو بزورقوت دبانے کی شعوری کوشش کرتا چلا آرہا ہے تاکہ اس سسٹم پر ان کا کنٹرول رہے، اس کے ذریعے وہ ریاست کے وسائل اپنے تک محدود رکھ سکیں ۔ اس مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طبقے نے اپنے اثرورسوخ اور مقتدر ہونے کے ناطے پاکستان کی معاشرت، سیاست ،کلچر اور تاریخ کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔

پاکستان میں نصاب تعلیم سے لے کر معاشرت، سیاست اور تاریخ تک کو مخصوص نظریات کا تڑکا لگا کر اسے آئینی اور قانونی تحفظ دینے کی شعوری کوشش کی گئی ہے اور یہ گروہ اب بھی اس کوشش میں مصروف ہے۔ معاشرے میں روشن خیال، معتدل اور رواداری کی سوچ اور سیاست کو کچلنے کے لیے رجعت پسند تنظیموں، الٹرا رائٹ سیاسی پارٹؤں ، مذہبی گروہ اور شخصیات کی گلوری فیکیشن کی ایک منظم مہم جاری رکھی گئی ۔

نقلی کو اصلی بنا کر پیش کیا گیا، کنجوس کو سخی پینٹ کیا گیا، مسٹر ڈرٹی کو مسٹرکلین بنایا گیا، قاتل کو مظلوم اور بے گناہ کو قاتل قرار دیا گیا۔ بے علم کو عالم اور بے ہنر کو سائنسدان کا روپ دیا گیا۔ اس پالیسی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ پورا ملک انتہاپسندی اور خونریزی کی لپیٹ میں ہے۔ آج انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر دروغ گوئی اور نفرتوں کا جو طوفان برپا ہے، یہ سب تعلیم یافتہ نسل کے ’’ سنہری کارنامے ہیں‘‘، ان پڑھ تو ان نابغوں کا کیا دھرا بھگت رہے ہیں۔

 پاکستان میں بھی ایسی ہی سوچ نے معاشرے میں نفرتوں اور تعصبات کے بیج بوئے ہیں، ان زہریلے جذبوں کو نظریات کا عملی جامعہ پہنایا، فوک وزڈم ، لوک داستانوں، رزمیہ گیتوں، شاعری و ادب اور ناٹکوں کو جہالت قرار دیا گیا جب کہ مقامی ہیروز کے کرداروں کو مسخ کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بغیر کسی ندامت کے کہہ رہا ہے، ’’محمود غزنوی کی طرح حملے کرتے رہیں گے‘‘۔ اب اس بونگی پر ہنسا جائے یا ماتم کیا جائے ، اس معاملے میں آپ ہی رہنمائی کردیں۔ سنا ہے کہ موصوف آرٹس کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ ہے نہ سر پیٹنے والی بات ۔ محمود آف غزنی کتنے عادل بادشاہ اور فاتح تھے ، اس کا احوال ہمارے بزرگ محقق ، ڈرامہ نگار اور کالم نویس سعد اﷲجان برق اپنے سفر غزنی میں بیان کرتے ہیں۔ غزنی شہر میں محمود کا مقبرہ تلاش کرنے میں انھیں جن جوکھم سے گزرنا پڑا ، اور وہ مقبرہ یا کھنڈر یا ویرانہ تلاش کرکے انھیں جس ماؤسی کا سامنا کرنا پڑا ، اس کا ذکر انھوں نے اپنے کسی کالم میں بھی کیا ہے ‘ جو اپنے شہر میں اجنبی ہے ‘ہمارے ہاں مشہور ہے۔

 ریاست پاکستان کے وسائل پر پلنے والا ایک مختصر اور محدود لیکن بااثر طبقہ عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔ یہ طبقہ کالے دھن اور طاقت کے ذریعے ریاست کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ انتہا پسندی کو اسی مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل طاقتور اشرافیہ کی مدد، حمایت اور سہولت کاری حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے۔پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو مسلسل نرم رکھنے کی پالیسی نے اس گروہ کو ماورائے آئین و قانون ہونے کا احساس دلایا ہے۔

جب کسی طبقے یا گروہ کو ریاست اور حکومت کی رٹ کا خوف نہ ہو، اپنے ہی ملک میں ایسے علاقے موجود ہوں جہاں آئین و قانون کی عملداری نہ ہو، تو لازم ہے کہ ایسا طبقہ منہ زور ہوگا، وہ وسائل پر کسی قانونی گروہ سے زیادہ اپنا حق فائق سمجھے گا۔ وہ اپنی دولت کو جائز، قانونی اور دوسروں کی دولت کو کرپشن قرار دے گا کؤنکہ اس سے اس کی اپنی دولت ، مراعات اور سہولیات کا حساب کسی نے طلب ہی نہیں کیا ہے۔ اپنی اسمگلنگ کو کاروبار قرار دے گا۔ ریاست کو ٹیکس نہیں دے گا لیکن ریاست کے انفرااسٹرکچر پر اپنا حق جتائے گا۔ پاکستان میں ایسا ہی ہورہا ہے۔

پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ جانوں اور اربوں ڈالرکا نقصان اٹھا چکا ہے ۔آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ پاکستان میں شدت پسندی کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں اور اس سے وابستہ عناصر تن آور درخت بن گئے ہیں اور معاشرے میں تنگ نظری، نفرت، عدم برداشت اور جارحیت مزاج کا حصہ بنتی رہی جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ جب ریاست قتل و غارت کرنے والوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرے گی، عوام میں مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو گلدستے اور مٹھائیاں پیش کی جائیں گی تو تشدد اور جلاؤ گھیراؤ معمول ہی بنیں گے۔

آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب اور قوم پرستی کا لبادہ استعمال کرتی آرہی ہے۔ آج دہشت گردی صرف قتل وغارت کا مظہر نہیں بلکہ پوری معیشت کا روپ دھارچکی ہے، شدت پسندی کا زہر ہمارے قومی وجود میں سرایت کرچکا ہے۔

 شدت پسند عناصر دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن منظم ریاستوں میں ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے اور وہ سسٹم میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں ان کی تباہ کاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پسماندہ اور غریب ممالک میں سسٹم چونکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، اس لیے انتہاپسند طبقے انفرادی حیثیت میں وارلارڈز کا روپ دھار کر پورے ملک کو تاراج کردیتے ہیں۔ افغانستان، صومالیہ، یمن اورشام سامنے کی مثالیں ہیں ۔

ان ملکوں میں مسلح ملیشیائیں خوف اور دہشت کی بنا پر حاکمیت قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں کوئی منظم اور مسلح فورس نہیں ہے جو ان سے زیادہ تربیت یافتہ، جدید اسلحہ سے لیس اور وسائل کی حامل ہو، لہٰذا ان ملکوں میں پرامن مڈل کلاس کی حالت بھیٹرؤں کے غول میں گھرے ہوئے ہرن کی سی ہوتی ہے جس کے پاس اپنے دفاع کا کوئی سامان نہیں ہوتا ۔ بھیٹرؤں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اسے کب چیرتے پھاڑتے ہیں۔ پاکستان میں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کررہی ہے۔ آج ہماری بقا صرف اس میں ہے کہ ہمارے ادارے اور سسٹم تاحال فعال ہیں۔ سیکؤرٹی فورسز کی طاقت کے سامنے سب کمزور ہیں۔ لہٰذا ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہرکوشش کا ساتھ دینا چاہیے۔ کوئی ادارہ کتنا جمہوری ہے اور کتنا غیرجمہوری، اس کا فیصلہ بعد میں ہوتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں