تقریباً نصف صدی قبل یہی دن، تاریخیں اور مہینہ تھا جب سقوطِ ڈھاکا ہوا، پاکستان دولخت ہُوا اور ہم مغربی پاکستانیوں کے دل لخت لخت ہو گئے تھے ۔
یہ ہمارے طاقتوروں، اہلِ اقتدار اور جملہ حکمرانوں کی نااہلی، کجروی اور عوام سے ناانصافی برتنے کا نتیجہ تھا جس نے سقوطِ ڈھاکا کا منظر ساری دُنیا کے سامنے رکھا۔ اور سقوطِ ڈھاکا کے 53برس بعد سقوطِ دمشق ہُوا ہے۔ شام (یا السوریہ) پر ’’الاسد‘‘ خاندان کا پچاس سالہ اور بشارالاسد کا25سالہ اقتدار ختم ہو چکا ہے۔
کارن وہی نااہلی، کجروی اور اپنے عوام پر مظالم! بشارالاسد بزدلی اورکم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے اپنے ملک سے فرار ہو کر ، معہ اپنے اہلِ خانہ، مبینہ طور پر اپنے محسن ملک ،رُوس، میں پناہ لے چکا ہے۔آج شام لاوارث ہے ۔ شامی سرکاری فوجیں تتر بتر ہو چکی ہیں۔ شام پر مزید خونی خانہ جنگی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ سنہری موقع پا کر صہیونی اسرائیل نے شام کے پہاڑی علاقے(گولان ہائٹس) پر مزید قبضہ کر لیا ہے۔
پچھلے ڈیڑھ عشرے کے دوران شام کے کئی حصوں میں بروئے کار ’’القاعدہ‘‘ اور ’’داعش‘‘ ایسے شدت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلسل خونی اور تباہ کن کارروائیاں جاری رکھی ہُوئی تھیں۔اِن دہشت گردانہ وارداتوں نے شامی حکومت کو خاصا کمزور کر دیا تھا۔ معاشی و عسکری طور پر بھی ، سماجی اعتبار سے بھی اور جغرافیائی حوالے سے بھی۔ اِسکا انت اور انجام یہی ہونا تھا جو دسمبر2024 کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں ہُوا ہے: سقوطِ دمشق !بشارالاسد کی شکل میں شام میں ’’الاسد‘‘ خاندان اور ’’بعث‘‘ پارٹی کے پانچ عشروں پر پھیلے جابرانہ اقتدار کا سورج ڈُوب گیا۔
قدرت کے فیصلے بھی عجب ہیں ۔پچاس برس قبل شامی ائر فورس کے ایک افسر، حافظ الاسد، نے جس طریقے سے شام پر قبضہ کیا تھا ، 2024 کے خاتمے کے قریب اِسی طرح ’’الاسد‘‘ خاندان اور ’’علوی مسلک‘‘ کا اقتدار بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔ کیسے عبرتناک لمحات ہیں کہ بشارالاسد کا اقتدار ختم ہُوا ہے تو الاسد خاندان پر ماتم کرنے والا کوئی نظر نہیں آ یا ۔ کھلی آنکھیں رکھنے والوں کے لیے مقامِ عبرت!
ہم نے تقریباً 53سال قبل ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کا منظر دیکھا اور سُنا ۔فال آف ڈھاکا سانحہ میں بھارت ، رُوس اور امریکا نے یکساں کردار ادا کیا ۔ ہم ماتم کرتے اور اپنے سر پر خاک ڈالتے ہی رہ گئے ۔ پاکستان ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان کی جگہ ’’بنگلہ دیش‘‘ معرضِ عمل میں آ گیا۔ قافلہ مگر آگے بڑھ گیا۔ ہمارے آنسو بھی دھیرے دھیرے خشک ہو گئے۔ سقوطِ ڈھاکا کے سات آٹھ سال بعد ہم سب نے ’’سقوطِ تہران‘‘ کا منظر دیکھا اور سُنا۔ عوامی دباؤ کے سامنے ایک بادشاہ ڈھے گیا۔
ایران پر ایک باجبروت شہنشاہ اور پہلوی سلطنت کا خاتمہ عمل میں آ گیا۔ شاہ ایران ، رضا شاہ پہلوی، کو خاندان اور اپنی خفیہ دولت سمیت ملک سے فرار ہو کر مصر میں پناہ لینا پڑی کہ مغربی دُنیا کا کوئی ملک بادشاہ کو اپنے ہاں ٹھہرانے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ مصر ہی میں وہ بیکسی میں مرگیا اور اُس کی میّت پر سوائے اہلیہ کے آنسو بہانے والا کوئی نہیں تھا ۔
سقوطِ تہران کے بعد ہم نے ’’ سقوطِ بغداد‘‘ اور’’ سقوطِ تریپولی‘‘ بھی دیکھا اور سُنا۔ صدر صدام حسین اور کرنل قذافی کی حکومتیں امریکا و مغربی طاقتوں اور دہشت گردوں نے ختم کر ڈالیں ۔ صدام حسین کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا اور کرنل قذافی نہائت بہیمانہ طریقے سے قتل کر ڈالے گئے۔ عراق و لیبیا خون کی ندیوں میں نہا گئے۔ چار عشروں بعد ہم نے ’’سقوطِ کابل‘‘ دیکھا اور سُنا ہے ۔ کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے موقع پر شاہ ایران اور بشارالاسد کی طرح کابل کے حکمران ، اشرف غنی، کو بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ، رات کے اندھیروں ، میں ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اور اب سقوطِ دمشق کا منظر اور بشارالاسد کا فرار ۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!
’’سقوطِ دمشق‘‘ کے تازہ ترین عالمی واقعہ کی موجودگی میںچند سوالات ہیں جو ذہن کی اُفق پر چھا رہے ہیں : خاص طور پر بھارت نے ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کی صورت گری میں حصہ لیا تھا ، یہ سوچ اور منصوبہ بندی کرتے ہُوئے کہ ڈھاکا پر ہمیشہ اُس کا راج اور تسلّط رہے گا۔ آج ڈھاکا میں بھارت بارے سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے ۔ ’’سقوطِ تہران‘‘ کی کامیابی میں علمائے ایران کے ساتھ سب سے زیادہ کردارایرانی سیکولر جماعتوں اور سیاستدانوں کا تھا ۔
آج وہ مرکزی کردار ادا کرنے والے سیکولر ایرانی چہرے کہاں ہیں؟ کہیں بھی نہیں ۔ منہ زور ایرانی مذہبی و مقتدر جماعتوں نے اُنہیں بہت پیچھے دھکیل دیا ۔ ’’سقوطِ کابل‘‘ میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا ، یہ خیال کرتے ہُوئے کہ کابل میں پاکستانی مفادات محفوظ رہیں گے اور یہ کہ پاکستان کی مغربی سرحد ہمیشہ کے لیے امن کا گہوارا بن جائے گی ۔ آج کابل کے مُلّا طالبان حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحد انتہائی غیر محفوظ بن چکی ہے۔
پاکستان کے مغرب میں افغان طالبان کی حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کوڑھ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن عالمی قوتوں نے شام میں ’’الاسد‘‘ خاندان کا چراغ گُل کرتے ہُوئے ’’داعش‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ کے ایک سابق نمایاں رکن، احمد حسین الشرع المعروف ابو محمد الجولانی ،کے ہاتھ میں مملکتِ شام کی باگ تھما دی ہے ، وہ عالمی طاقتیں کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ۔
یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد اہلِ بنگلہ دیش خوشی اور خوشحالی کے خوابوں سے مکمل طور پر ہمکنار ہو گئے ؟حالت یہ ہے کہ آج بھی بنگلہ دیشی اکثریتی طور پر بھارت اور پاکستان بھاگ جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ سقوطِ تہران کے بعد کیا ایران کے انقلابی عوام کے دامن خوشیوں ،خوشحالیوںاور آزادیوں کے پھولوں سے بھر گئے؟ آج بھی ایرانیوں کی اکثریت آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے لیے ملک سے بھاگ جانے کی آرزُو مند ہے۔ حجاب کے لیے ایرانی حکومت نے حال ہی میں جو نیا سخت قانون لاگو کیا ہے ، اس پس منظر میں ایرانی عوام کا ردِ عمل قابلِ دید ہے۔
ایرانی انقلاب کے جملہ فائدے ایرانی مذہبی قوتوں کو تو ملے ہیں ، ایرانی عوام مگر محروم چلے آ رہے ہیں ۔ اور سقوطِ کابل کے بعد افغان عوام آج کہاں کھڑے ہیں؟ افغانوں کی محرومیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ افغان خواتین کی خاص طور پر آزادیاں سلب ہو چکی ہیں ۔ طالبان کے جبریہ افغانستان سے ہر افغانی بھاگ جانا چاہتا ہے۔چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین بھی پاکستان سے افغانستان جانا نہیں چاہتے ۔ اور اب سقوطِ دمشق کے بعد اہلِ شام کے احساسات و تفکرات کیا ہوں گے ، یہ بھی ہم جلد ہی دیکھ لیں گے ۔ اندازے مگر یہی ہیں کہ نئی باغی اور قابض قوتوں کے ہاتھوں اہلِ شام کا حال بھی وہی ہونے والا ہے جو ایران اور افغانستان میں مقتدر مذہبی قوتوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے ۔
شام میں ’’الاسد‘‘ خاندان کے اقتدار کا خاتمہ کرنے میں جہاں مغربی و امریکی اور اسرائیلی قوتوں نے اپنا جلی و خفی کردار ادا کیا ہے ، وہیں شام کے ہمسایہ، ترکیہ، کا کردار بھی نمایاں ہے ۔ مگر یاد رکھا جائے کہ جس طرح پاکستان کے ہمسائے میں واقع ، طالبان کے افغانستان، سے پاکستان آئے روز مسائل و مصائب کا ہدف بن رہا ہے ، عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اِسی طرح شام کے نئے (داعشی) قابضین کے ہاتھوں ترکیے بھی مسائل و مصائب کا (خدانخواستہ) شکار بننے والا ہے۔
وجہ وہی کہ یہ ’’جہادی‘‘ اقتدار میں آنے کے بعد نہ خود امن سے رہتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہمسایوں کو امن چَین میں رہنے دیتے ہیں ۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شام میں بشارالاسد اقتدار کے خاتمے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ السوریہ میں ایران اور حزب اللہ کا اثرو رسوخ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے ۔