تاریخ کی پیش قدمی

بایاں بازو قصہ پارینہ نہیں ہوا بلکہ تا ریخی طور پر پیش قد می کر رہا ہے۔


Zuber Rehman July 24, 2014
[email protected]

بایاں بازو قصہ پارینہ نہیں ہوا بلکہ تا ریخی طور پر پیش قد می کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معروف دانشور فوکوہاما نے "End of the History" نا می کتاب لکھی تھی۔ جس کے فو راً بعد مارکسی دانشور ٹیڈگرانٹ نے کہا تھا کہ یہ "Beginning of the History" ہے اور یہ بات درست ثابت ہوگئی۔

سیاٹل کے ایک لاکھ کا مظاہرہ جس کے مظاہرین نے آ ئی ایم ایف کے اجلاس کی فائلیں پھاڑی تھیں سے لے کر میکسیکو میں 50 لاکھ کا جلوس اور مصر میں ایک کروڑ سے زا ئد افراد کے مظاہرے، عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف لندن اور روم میں 20 اور 30 لا کھ افراد کے مظاہرے بڑے واقعات تھے اور پھر چند برس پہلے 'ہم99 فیصد ہیں' کے نعرے کے ساتھ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جو کہ88 ملکوں کے 900 شہروں میں مظاہرہ کر کے بائیں با زو کے نہ صرف و جود بلکہ مسلسل جدوجہد اور نفری میں ا ضا فے کا ثبوت فراہم کر دیا۔

بڑی تحریکیں جہاں بھی چل ر ہی ہیں وہ سب بائیں بازو کے زیر اثر ہیں۔ ترکی میں نیٹو کا فوجی اڈہ، کٹوتی اور بے روزگاری کے خلاف لا کھوں عوام سڑکوں پر امنڈ آ ئے تھے، اس کی رہنمائی بھی کمیونسٹ پار ٹی کر رہی تھی۔ تیونس، تھا ئی لینڈ، انڈونشیا اورکریمیا میں چلنے والی تحریکیں بھی بائیں با زو کے زیر اثر ہیں۔

جمال نقوی کی کتاب بایاں بازو اب نہیں رہا پر تبصرہ کر تے ہو ئے وجاہت مسعود نے کہا کہ لکھاری نے اپنی غلطی تسلیم کر کے عظیم کام انجام دیا ہے۔ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''میں نے بائیں بازو کی سیا ست کر کے غلطی کی تھی۔'' آخر یہ بات وہ کس کو بتانا چا ہتے ہیں؟ بات واضح ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی بتانا چا ہتے ہیں کہ میں اب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ بات سمجھنے کی ہے کہ بایاں بازو ہے کیا؟ 300 سال قبل از مسیح میں چین کے انار کو کمیونسٹ باؤجینگیان نے کہا تھا کہ 6000 سال تک یہاں جنت نما سماج قائم تھا۔

لوگ پانی سے مچھلی پکڑتے، درختوں سے پھل توڑتے اور سو رج طلوع ہو نے سے غروب ہو نے تک مختلف مصروفیات میں لگے رہتے تھے۔ کو ئی حسد تھا، کینہ تھا اور نہ مقا بلہ، سا ری دو لت اور قدرتی وسائل سب کی مشترکہ ملکیت تھی۔ جسے وہ نیلی جنت کہا کر تے تھے۔ بعد ازاں کچھ حکمران نازل ہو ئے اور قانون و آئین بنایا اور لو گوں پر یہ پابندی اور احکامات جا ری کیے کہ یہ کھانا ہے یہ نہیں کھانا ہے، یہاں رہنا ہے یہاں نہیں رہنا ہے، ادھر جا نا ہے اور ادھر نہیں جا نا ہے، اس سے ملنا ہے اور اس سے نہیں ملنا ہے۔ بس اسی وقت طبقات نے جنم لیا'۔ اور پھر انسان نے انسان کو غلام بنا نا شروع کر دیا۔

اس جنت نما سر زمین کو جن سر ما یہ داروں نے دوزخ بنا رکھا ہے، اس دوزخ سے نجات ہی انسان کے روشن مستقبل میں مضمر ہے۔ الگزینڈر بر ک مین کا ایک مضمون 1919ء میں نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'محنت اور پیداوار کا تبادلہ، قیمت اور منافعے کے بغیر ہونا چاہیے اور ضرورت کے مطابق ترسیل۔ یہ منطق ہمیں اجتماعیت کا سبق دیتی ہے اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو آپس میں جوڑ دیتی ہے۔'' جو نظام یعنی سرمایہ داری اس وقت دنیا میں رینگ رہا ہے، وہ زند گی کی آخری ہچکو لے لے رہا ہے۔ سات ارب کی آ بادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔

دنیا کے چند لوگ شہریوں کا خون چوس کر مو ٹی جونک بن چکے ہیں۔ اب یہ نظام ان سے چلائے نہیں چل رہا ہے۔ یعنی اس کا متبادل صرف آ زاد، غیر طبقاتی اور اشتراکی معاشرے کے قیام میں ہی ممکن ہے۔ کچھ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ جو کاہل لوگ ہیں یا کام نہیں کرنا چاہتے ہیں اور جنکی صلاحیت زیادہ یا کم ہے ان کا کیا ہو گا؟ اس دنیا میں کو ئی کاہل ہوتا ہے اور نہ صلاحیت سے عاری۔ درست آدمی کو غلط جگہ پہ متعین کر دیا جاتا ہے۔

اگر کسی کو زراعت کا شعبہ پسند نہیں اور آپ اسے زراعت کے کام پر مامور کر دیں تو کبھی بھی بہتر نتائج نہیں دے گا اور نہ دلچسپی سے کام کرے گا، اگر وہی شخص مچھلی پکڑنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ صرف بہتر طور پر مچھلی پکڑے گا بلکہ اس کام کو ہنسی خوشی انجام دیتے ہو ئے لطف اندوز ہو گا اور پیداوار بھی زیادہ دے گا۔ سرمایہ داری میں آزادی سے اپنا پیشہ کوئی اختیار نہیں کر سکتا ہے، اگر آزادی ہے تو صرف پیسے بٹورنے کی آزادی ہے۔

بہتر شخص کو غلط جگہ پر جوڑنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جہاں تک صلاحیت کی بات ہے تو ماحول، سہولیات اور ضروریات پوری کیے بغیر صلاحیت کو اجاگر کرنا ناممکن ہے۔ کسی شخص کی فٹبال کھیلنے یا استاد بننے کی صلاحیت ہے لیکن اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں فٹبال کھیلنے کے لیے نوکر شا ہی کو کھلا ئے پلائے بغیر وہاں تک پہنچنا ہی مشکل ہے، کھیل تو بعد کی چیز ہے۔ استاد بننے کے لیے یا ڈاکٹر بننے کے لیے لاکھوں رو پے رشوت دیکر اس محکمے میں جب ملازمت ملتی ہے تو وہ خدمت اور تخلیق کر نے کے بجا ئے پیسے بٹور نے کے چکر میں مصروف ہو جاتا ہے۔

کتاب کے مصنف جمال نقوی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں روس گیا تھا اور وہاں جو کچھ دیکھا اس سے میں بیزار ہو گیا۔ وہاں کی حا لت تو پا کستان سے بد تر تھی۔ اب بھلا اس کھلے جھوٹ کو، صبح بے نور کو کون مان سکتا ہے۔ دشمن بھی نہیں مانیں گے۔ سو ویت یو نین میں تعلیم، علاج، رہا ئش، ٹرانسپو رٹ وغیرہ مفت تھے۔ لوممبا یو نیورسٹی کے ہا سٹل میں 17 ہزار طلبہ رہائش پذیر تھے جو مفت تعلیم حاصل کر تے تھے، ان میں بیشتر بیرون ملک کے طلبہ تھے۔

ایک روبل ایک ڈالر کے برا بر تھا اور اب کی بات جمال صاحب خود بتا ئیں گے۔ جہاں تک وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عقیدہ تھا تو کیا مارکس کا داس کیپٹل بھی عقیدہ ہے، با کونن کا گوڈ اینڈ اسٹیٹ بھی عقیدہ ہے، اینگلز کا خاندان ذاتی ملکیت اور ریا ست کا آغاز بھی عقیدہ ہے، کیا ایما گولڈمان کی کتاب سر خ رو بھی عقیدہ ہے، ٹا لسٹا ئی کی کتابیں بھی عقائد پر مبنی ہیں۔ کل تک تو چند کتابیں چھپتی تھیں اور اب رو زا نہ دنیا میں سیکڑوں کتا بیں با ئیں بازو کی چھپتی ہیں۔

باؤجین گیان، ویلم گو ڈون، با کو نن، پرو دھون، فرانسسکو فیرر، وولٹر ڈی کلیری وغیرہ نے جو کچھ لکھا اور لکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ عقیدہ نہیں بلکہ دور جدید کا فلسفہ ہے۔ اور اس وقت اس فلسفے پر لا طینی امریکا کے35 ملکوں میں سے 33 ممالک کسی حد تک گامزن ہیں ۔ یورپی یونین کی اسمبلی میں 50 سے زا ئد بایاں با زو بیٹھا ہوا ہے۔ جا پان میں 22 ارکان اسمبلی کمیونسٹ ہیں، چیک ری پبلک کی اسمبلی میں 17 کمیونسٹ ہیں، خود اوباما کی پارٹی میں 28 فیصد ارکان سوشلزم کے حامی ہیں ۔ اب وہ دن دور نہیں کہ ایک ایسا نظام قائم ہو گا جہاں کو ئی طبقہ ہو گا۔ کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کو ئی گداگر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں