معاشی منصوبے اور سانحہ مشرقی پاکستان

اس منصوبے کے تحت نجی شعبے نے حوصلہ افزا حد تک مشرقی پاکستان میں زبردست ترقی کی۔



پاکستان کے پہلے تین پانچ سالہ منصوبے ملک کے دونوں حصوں کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ پہلا معاشی منصوبہ جولائی 1955 سے لے کر 1960 تک کے لیے تھا، لیکن آغاز سے ہی ملک کی سیاسی صورتحال ابتری کا شکار تھی، آئے روز وزیر اعظم تبدیل ہوتے جا رہے تھے، لہٰذا عملدرآمد کرنے میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور صحیح معنوں میں عملدرآمد غیر سول حکومت کے قیام کے ساتھ ہوا، لیکن اس مختصر مدت میں اس منصوبے سے وابستہ توقعات کیسے پوری ہو سکتی تھیں۔

ان تینوں منصوبوں کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی کی بنیاد بھی بنے اور ملک کے دونوں حصوں کے لیے بھی تھی اور انھی منصوبوں کی بنیاد پر ہونے والی ترقی کا منفی رخ پیش کرکے مشرقی بازو کے سیاستدان یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ ان کے ساتھ معاشی ناانصافی ہو رہی ہے اور ترقیاتی منصوبوں، مالیاتی اخراجات کے معاملے میں مغربی پاکستان کو ترجیح دی جا رہی ہے اور یہی معاشی پہلو منفی پروپیگنڈوں کے باعث مشرقی پاکستان کے شہریوں کے دل و دماغ میں یہ رائج کر دیا گیا کہ مغربی پاکستان جوکہ اگرچہ آبادی میں ہم سے کم ہے لیکن تمام تر معاشی، مالیاتی فوائد ہم سے زیادہ سمیٹ کر لے جاتا ہے۔

 آج 53 برس کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش کے حالات بالکل بدل چکے ہیں اور اب بھارت کی طرف سے تھوپے گئے منفی اثرات کا ازالہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان بنگلا دیش کے ساتھ تعلقات 1950 اور 1960 کی دہائی کے نہج پر لے کر جائے۔

یہ باور کرانے کے لیے کہ مشرقی پاکستان کو اس کا حصہ بہم پہنچایا جاتا رہا ہے۔ اس کے لیے ہم اس دور کے تینوں پانچ سالہ منصوبوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں جس سے کچھ نہ کچھ واضح ہو سکتا ہے کہ وہ تمام پروپیگنڈا غلط تھا جس کی بنیاد پر بنگلہ دیش جوکہ ہمارا بازو تھا اسے کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔

 چند باتیں پہلے تینوں معاشی منصوبوں سے لی گئی ہیں۔ پہلے منصوبے کی بات کریں تو اس کی تکمیل کی مدت محض تین سال پر محیط رہی لہٰذا منصوبہ بندی کمیشن نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ کچھ کامیابیوں اورکچھ ناکامیوں پر مشتمل ہے لیکن محض مشرقی پاکستان کی بات کریں تو وہاں پٹ سن کی مصنوعات اور چائے کی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔

اس منصوبے کے دوران تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اہم فصل پٹ سن کی پیداوار میں 15 فی صد اضافہ اور چائے کی پیداوار میں بھی 15 فی صد اضافے کا پروگرام بنایا گیا۔ ان دونوں اشیا کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور اس میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت نجی شعبے نے حوصلہ افزا حد تک مشرقی پاکستان میں زبردست ترقی کی۔ ان میں زیادہ تر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کاروباری، تجارتی اور صنعتی افراد تھے۔

ان میں سے بڑے بڑے گروپس وہ تھے جوکہ 1946 تک کلکتہ کی معاشی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرچکے تھے اب وہ اپنا تجربہ لے کر ڈھاکا اور دیگر شہروں میں آ کر آباد ہوئے۔ یہاں پر چھوٹی بڑی فیکٹریاں قائم کیں۔ ان میں ڈھاکا میں چکوال کا دیانت دین سہگل گروپ چنیوٹ کے عبدالرحیم گروپ، چٹاگانگ میں ملک نور محمد اعوان گروپ، المعروف خان صاحب گروپ اور دیگر شہروں میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد یہاں کی معاشی ترقی کے عمل میں دل و جان سے شریک تھے۔

دوسرا منصوبہ جوکہ 1960 سے 1965 تک کے لیے تھا۔ اس کے صنعتی پیداوار کے حتمی نتائج دیکھتے ہیں تو پٹ سن کی مصنوعات کی پیداوار میں 86 فی صد اضافہ ہوا اور پٹ سن کی پیداوار کا تعلق مشرقی بازو سے ہی ہے۔ دوسرے منصوبے کے آخر میں جائزہ لینے کے بعد یہ بتایا گیا کہ بندرگاہوں کی ترقی کے سلسلے میں چٹاگانگ کے قریب ایک ’’مرکنٹائل میرین اکیڈمی‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ستمبر 1962 سے اپنا کام شروع کر دیا تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ دوسرے منصوبے کے تحت مغربی پاکستان میں 925 میل لمبی پختہ سڑکیں تعمیر کی گئیں اور مشرقی پاکستان میں 979 میل لمبی سڑکوں کی تعمیر مکمل کی گئی۔

اس منصوبے کے تحت لاہور اور ڈھاکا کے دو انجینئرنگ کالجوں کو ترقی دے کر یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ جہاں تک تعلیمی شعبے کی بات ہے تو بتایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ مغربی پاکستان میں جماعت ششتم سے انگریزی A,B,C پڑھائی جاتی تھی جب کہ مشرقی پاکستان میں غالباً کلاس ٹو یا کلاس تھری سے انگریزی کی تعلیم دیتے تھے۔

جس کے باعث وہاں کے طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کی انگریزی کی استعداد مغربی حصے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسرے منصوبے کا مقصد یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان کی ترقی کے لیے مغربی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ فنڈز مخصوص کیے جائیں جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں فی کس آمدنی میں اضافے کی شرح 4.9 فی صد اور مغربی پاکستان میں 4.7 فی صد رہی۔ کابینہ میں بنگالی وزیروں اور سیکریٹریوں، افسران بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ان کو ان کا پورا حصہ دیا جا رہا تھا اور ان کی تعلیمی قابلیت، انگریزی میں مہارت،کرپشن سے دوری، حب الوطنی سے بھرپور ہونے کا فائدہ اٹھایا گیا۔

 جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو وہاں زیادہ تر بنگال سے تعلق رکھنے والے ملازمین آ کر براجمان ہوئے۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد کا نام اسلام آباد میں پیدا ہونے والی ایک بچی کے نام پر رکھا گیا، جن کے والدین کا تعلق بنگال سے تھا۔

تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے آغاز سے قبل ہی پاک بھارت جنگ چھڑگئی تھی۔ بہرحال اس منصوبے میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مشرقی پاکستان کی فی کس آمدنی میں 40 فی صد اور مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی میں 35 فی صد اضافہ کیا جائے گا۔ حکمت عملی یہ طے کی گئی کہ مشرقی پاکستان کی خام ملکی پیداوار میں 40 فی صد اور مغربی پاکستان کی خام ملکی پیداوار میں 35 فی صد اضافہ کیا جائے گا۔

اب آپ یہ ملاحظہ فرمائیں جب یہ کہا جا رہا تھا کہ سب کچھ مغربی پاکستان ہڑپ کر جاتا ہے ہمارا حق مار رہا ہے اس بنیاد پر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی تحریک چلائی جا رہی تھی۔ ان دنوں تیسرے منصوبے کی ترقیاتی پروگرام کی تکمیل کے لیے 52 ارب روپے مخصوص کیے گئے، کل رقم میں سے 27 ارب روپے مشرقی پاکستان کے لیے اور 25 ارب روپے مغربی پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے۔ لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ اس عرصے کے دوران مشرقی پاکستان اکثر سیلاب کی زد میں چلا جاتا جس سے کافی نقصان اٹھانا پڑتا۔ اس قدرتی آفت کے مداوے میں کچھ وقت لگ جاتا اور یہ معمولی تاخیر اور نقصان بھی مغربی پاکستانیوںکے سر پر تھوپ دیا جاتا تھا۔

مغربی پاکستان کی انتظامیہ کی کبھی کوشش نہ رہی ہوگی کہ مشرقی بازو کی فلاح و بہبود وہاں کی معاشی ترقی عوام کی معاشی خوشحالی میں وہ کوئی رکاوٹ ڈالیں۔

ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ آخر آپ دیکھیں نا بنگالی افسران اور وزیر اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ہر شعبے میں تقریباً ہر وزارت میں براجمان تھے، لہٰذا یہ سب ایسا جھوٹا پروپیگنڈا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان عالمی سطح پر اور مشرقی پاکستان کے شہریوں سے ان منفی اثرات کو ختم نہ کر سکا کہ نفرت کی آگ نے سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا لیکن اس راکھ میں محبت کی چنگاری ابھی موجود ہے اور اس کے ذریعے ہم دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور دوستی کے جذبے کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں