بچوں کی کتاب سے دوری، لمحہ فکریہ

کتابوں میں بچوں کو جتنی زیادہ تفصیل جذبات اور پیچیدگی ملتی ہے، اتنا ہی ان کا دماغ ترقی کرتا ہے


زاہدہ حنا December 25, 2024

فینانہ فرنام کی تحریر کردہ بچوں کی کہانیوں کا مسودہ ’’ روشن خواب روشن کہانیاں‘‘ میرے لیے خوشی اور فخر کا باعث بنا۔ یہ کہانیاں نہ صرف بچوں کے لیے بہترین سبق اور تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ ان میں موجود پیغامات زندگی کے اہم پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جب میں نے ان کہانیوں کو پڑھا تو مجھے ایک بات نے خاص طور پر متاثر کیا وہ یہ کہ ان کی کہانیاں بہت مختصر ہیں۔ یہ بات میری توجہ کا مرکز بن گئی کیونکہ بچوں کے لیے کہانیاں ہمیشہ تفصیل کے ساتھ لکھی جاتی رہی ہیں، لیکن فینانہ کا جواب سن کر جس میں اس نے بتایا کہ ’’آج بچوں کی توجہ بہت کم ہو چکی ہے ‘‘ یہ جان کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ کیا واقعی موجودہ دور میں بچوں کی توجہ کی مدت میں اتنی کمی آ گئی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا کیا اثر پڑ رہا ہے۔

فینانہ نے کہا کہ ’’ آج کے بچے مختلف اقسام کی مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں۔ اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس، وڈیو گیمز، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ذرایع نے ان کی زندگیوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ ان کی توجہ بہت جلد کسی اور طرف مبذول ہو جاتی ہے، وہ جو بھی کچھ کرتے ہیں اس میں ایک تیز رفتاری اور شور ہوتا ہے۔

ان کی زندگی کے بیشتر حصے میں اسکرین کی موجودگی ہوتی ہے جو کہ ان کی توجہ کو بار بار مختلف چیزوں میں تقسیم کرتی ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر میں نے مزید سوچا کہ آیا یہ ایک حقیقت ہے یا محض ایک عارضی رجحان؟ کیا واقعی بچوں کی توجہ کی مدت میں اتنی کمی آئی ہے؟ اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

پہلا سوال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کیا واقعی بچوں کی توجہ میں اتنی کمی آ چکی ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں موجودہ سماجی اور ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں میں ملتا ہے۔ آج سے چند دہائیاں پہلے بچوں کے لیے کہانیاں ایک اہم ذریعہ تھیں جو نہ صرف ان کے تخیل کو جلا بخشتی تھیں بلکہ ان کے کرداروں کی اخلاقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

کتابوں میں ہر کردار کی جذباتی گہرائی پیچیدہ پلاٹ اور تفصیل ہوتی تھی جو بچوں کے ذہنوں میں ایک تصویر بناتی تھی، مگر اب بچوں کی زندگی میں ٹیکنالوجی کا ایسا غلبہ ہے کہ کتابوں کی جگہ وڈیو گیمز اور سوشل میڈیا پر موجود مواد نے لے لی ہے۔ ان تمام چیزوں نے بچوں کی توجہ کو ایک نئے انداز میں ڈھال دیا ہے۔

 موجودہ دور میں بچوں کی توجہ کے لیے مختلف ذرایع میں مقابلہ ہوتا ہے۔ اسمارٹ فون، کمپیوٹر، ٹیبلٹس اور ٹیلی ویژن کی صورت میں انھیں وہ تفریح اور معلومات کا ذریعہ مل رہا ہے جو اس وقت ان کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

ان ذرایع کے ذریعے بچوں کو رنگین اور پرکشش مواد فراہم کیا جاتا ہے جو ان کے دماغ کو مستقل طور پر متحرک رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا بہاؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچوں کی توجہ ایک جگہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتابوں اور کہانیوں میں وہ گہرائی اور تسلسل نہیں ڈھونڈ پاتے جو ماضی میں بچوں کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھی۔

اس سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا اس تبدیلی کو منفی سمجھا جائے؟ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بچوں کی توجہ کم ہو رہی ہے تو یہ ان کی ذہنی ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

کتابیں پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جو دماغی سکون کی بہتری اور تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ کتابوں میں بچوں کو جتنی زیادہ تفصیل جذبات اور پیچیدگی ملتی ہے، اتنا ہی ان کا دماغ ترقی کرتا ہے، جب کہ اسکرین پر مواد پڑھنا یا دیکھنا اتنا اثر نہیں ڈالتا۔ اسکرین کی مستقل تبدیلی نوٹیفکیشنز اور دیگر عوامل بچوں کی توجہ کو قائم نہیں رہنے دیتے، جس سے ان کے دماغی ارتقاء پر منفی اثر پڑتا ہے۔

کتابیں بچوں کے لیے صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کے کردار کی تعمیر کا بھی ایک اہم وسیلہ ہیں۔ کتابیں بچوں کو ایک نئی دنیا کی سیر کراتی ہیں انھیں مختلف ثقافتوں جذبات اور تجربات سے آشنا کرتی ہیں۔ یہ ان کے تخیل کو جلا بخشتی ہیں اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہیں، اگر بچوں کو اس طرح کی کہانیاں پڑھنے کا موقع نہ ملے تو ان کا تخیل محدود ہو سکتا ہے اور وہ دنیا کو صرف ایک مخصوص زاویے سے دیکھنے لگ سکتے ہیں۔

 یہاں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسکرین پر پڑھنا کتابوں کے مطالعے کا متبادل ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے، اگرچہ اسکرین پر بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں اور بچوں کے لیے تعلیمی مواد دستیاب ہے، لیکن کتاب کا تجربہ اس سے مختلف ہے۔

اسکرین پر کچھ پڑھنا ایک ایسا عمل ہوتا ہے جہاں قاری کی توجہ بار بار منتشر ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس کتاب پڑھنے میں ایک مستقل گہرا اور ذاتی تجربہ ہوتا ہے جس میں قاری اپنی مرضی سے توقف کرتا ہے، گہرائی سے سوچتا ہے اور کہانی کے کرداروں میں اپنے آپ کو ڈوبو دیتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کہ آیا بچوں کی کم ہوتی ہوئی توجہ کا رجحان ایک فطری نتیجہ ہے یا ایک عارضی تبدیلی؟ یہ کہنا کہ یہ صرف ایک عارضی رجحان ہے حقیقت سے کچھ دور ہوگا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے بچوں پر اثرات کے پیش نظر یہ کہنا کہ توجہ کی مدت کم ہونے والا رجحان ختم ہو جائے گا ممکن نہیں لگتا۔

اس کے بجائے ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے مطابق بچوں کے لیے تعلیم و تفریح کے ذرایع کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کے لیے ایسی کہانیاں اور مواد فراہم کرنا ہوگا جو ان کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی توجہ کو بھی مرکوز رکھے۔

 فینانہ فرنام کی ’’ روشن خواب روشن کہانیاں‘‘ ایک ایسا قدم ہے جو بچوں کی کم ہوتی ہوئی توجہ کے مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ کہانیاں نہ صرف مختصر اور دلچسپ ہیں بلکہ ان میں گہرائی اور سبق بھی موجود ہے۔ فینانہ نے ان کہانیوں میں اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ آج کے بچے کی توجہ بہت جلد منتشر ہو سکتی ہے اس لیے ان کہانیوں کو مختصر اور پرکشش بنایا گیا ہے تاکہ بچے انھیں دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور ان سے سیکھیں۔

یہ کتاب ایک ایسے دور میں آ رہی ہے جہاں بچوں کی توجہ کی مدت کم ہو چکی ہے مگر اس میں اس بات کی جھلک ہے کہ کم وقت میں بھی اچھے اور اہم پیغامات دیے جا سکتے ہیں، اگر بچوں کی کہانیاں مختصر دلچسپ اور اثر انگیز ہوں تو وہ بچوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکتی ہیں اور انھیں مطالعے کی طرف راغب کرسکتی ہیں۔

 فینانہ فرنام کی اس تخلیق کو دل سے کامیاب ہونے کی دعا دیتے ہوئے میں یہ امید کرتی ہوں کہ ان کی محنت اور تخلیقی صلاحیتیں اس کتاب کی صورت میں نیا راستہ دکھائیں گی اور بچوں کے ادب میں ایک نئی روشنی لائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں