مستحکم جمہوری حکومت کے لیے لازم ہے کہ اس کے دور میں ملک کے طول و ارض میں امن و امان قائم رہے، لوگوں کو ان کے آئینی بنیادی حقوق کا تحفظ حاصل ہو، ملکی معیشت مستحکم ہو اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ کے اندر و باہر سیاسی محاذ آرائی و رسہ کشی، الزام تراشی اور کشمکش کے بجائے افہام و تفہیم کا معاملہ ہو اور دونوں کے درمیان مثالی تعلقات ہوں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت مذکورہ کئی حوالوں سے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ امن و امان سے لے کر سیاسی و معاشی استحکام تک وفاقی حکومت کو متعدد چینلجز درپیش ہیں۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس جس میں پنجاب و کے پی کے گورنرز اور سندھ کے وزیر اعلیٰ شریک ہوئے تھے، وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف صوبوں کو مسائل کے حل کے حوالے سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔
ملک میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ملک کے دو اہم صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاک فوج کے بہادر جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں، وہ قابل تحسین ہیں۔ تاہم افسوس ملکی صورت حال یہ ہے کہ دہشت گرد وقفے وقفے سے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
چار روز پیشتر دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے جنوبی وزیر ستان کے ضلع مکین میں قائم سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 16 فوجی جوانوں کو شہید کر دیا، فائرنگ کے تبادلے میں 12 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لیے آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد کے قریب بھی خوارج اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ میں چار خوارج ہلاک جب کہ پاک فوج کا ایک جوان شہید ہو گیا۔
پاکستان بارہا افغان حکومت سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے اور سرحد کے اطراف موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے۔ افغانستان کے غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ طرز عمل کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس ضمن میں سنجیدہ اور ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
دس سال قبل آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 16 دسمبر کو پھول جیسے 126 طلبا اور اس کے اساتذہ شہید ہوگئے تھے۔ 27 دسمبر کو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پاکستان کی مقبول سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن گئی تھیں۔ دسمبر ہی کے مہینے میں 16 تاریخ کو سقوط بنگال کا ایسا دلخراش سانحہ رونما ہوا کہ آج بھی زخم تازہ محسوس ہوتا ہے۔
ہم ہر سال ان پرسوز سانحات کو یاد کرکے برسی مناتے ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے جو امن کے قیام کے ضمن میں ان کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہماری قومی معیشت قرضوں کے بوجھ اور آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے تو معاشی استحکام کی منزل کیسے حاصل ہوگی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ جو اضافہ ہو رہا ہے، اس نے غربت اور مہنگائی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔
عام آدمی کے لیے دو وقت کا کھانا مشکل ہوگیا ہے، وہ بھلا علاج معالجے، بچوں کی تعلیم، مکانوں کے کرایے اور بجلی گیس کے بھاری بل کیسے ادا کرے۔ غریب آدمی کی آہ و بکا کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، مجبور و بے کس لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے اور ادھار قرضے لے کر بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طریقے سے بیرونی ممالک جا رہے ہیں، جہاں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کی خواہش میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات اول دن سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ہر دو جانب سے زبانی جمع خرچ سے آگے عملی طور پر کوئی مثبت اور ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔
ادھر 9 مئی واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پی ٹی آئی کے 25 ملزمان کو سزائیں سنا دی گئی ہیں اور امکانی طور پر بانی پی ٹی آئی کو بھی فوجی عدالت سے سزا کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایسے ماحول میں امن و امان، معاشی و سیاسی استحکام اور عوام کے اطمینان کے کی باتیں سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔