وہ اِس قوم سے بہت مختلف تھا

جناح صاحب کے معمولات میں بڑی باقاعدگی تھی۔ وقت پر اُٹھنا، وقت پر دفتر جانا، اور وقت پر کام شروع کردینا۔


[email protected]

کرپشن ہماری خوراک بن چکی اور جھوٹ، فریب اور فراڈ ہمارے رگ و پے میں اُتر چکے ہیں۔ اپنے لیڈروں اور ہم وطنوں کی کرتوتیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ملک کی بدنامی اور بربادی دیکھ کر سوچنے لگتا ہوں کہ اس قوم کے قائد اور اس ملک کے بانی کس قسم کی شخصیّت تھے، کیا وہ بھی ہماری طرح اپنا ذاتی مفاد ہی عزیز رکھتے تھے، کیا وہ بھی ضرورت پڑنے پر جھوٹ بول لیتے تھے، کیا محمد علی جناح بھی وعدہ کرکے توڑ دیتے تھے اور کیا وہ بھی ملک کے حکمران ہونے کی حیثیّت سے قانون کو ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھتے تھے؟

جناح صاحب کی اصل شخصیّت جاننے کے لیے میں نے امریکی مورّخ سٹینلے وولپرٹ سمیت کئی غیر مسلم رائٹرز کی کتابیں بھی پڑھیں مگر میں مطمئن نہ ہوا اور پھر میں نے ان افراد کی کتابیں اور تحریریں پڑھیں جو پاکستان کے بانی کو قریب سے جانتے تھے جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا تھا اور جو ان کی سوچ، فکر اور طرزِ زندگی سے مکمّل آگاہی رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے قائدؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، ایم اے اصفہانی، قائد کے اے ڈی سی جنرل گل حسن اور سر محمد شفیع کی صاحبزادی بیگم شاہنواز کی کتابیں پڑھیں اور پھر معروف صحافی منیر احمد منیر کی تحقیقی تالیف ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ میں قائدؒ کے ذاتی اسٹاف اور انھیں قریب سے جاننے والوں کے مکمّل انٹرویو پڑھے تاکہ قائدؒ کی شخصیّت کا پوری طرح اندازہ ہوسکے۔

تمام غیر مسلم مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ بیسویں صدی کا سب سے دیانتدار اور بلند کردار سیاسی لیڈر بیرسٹر محمد علی جناح تھا جس کا دامن شبنم کی طرح صاف اور پاکیزہ تھا۔ قائد کو بہت قریب سے جاننے والے تمام لوگ ان کی خوش لباسی کے علاوہ ان کے دل ودماغ میں رچا ہوا قانون کا احترام، ڈسپلن کی پابندی اور میرٹ کی سربلندی کا خصوصاً ذکر کرتے ہیں۔ محمد علی جناح ؒ کی شخصیّت دیانتداری اور قانون کی عملداری (rule of law) کا نمونہ تھی لہٰذا اس کا بنایا ہوا پاکستان تو رُول آف لاء کا نمونہ ہونا چاہیے تھا اور اس کے پاکستان میں ایمانداری اور رزقِ حلال کا کلچر پروان چڑھنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے اس کے ملک میں صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔

ان کے تمام اسٹاف ممبران جن میں مختلف اوقات میں کام کرنے والے اے ڈی سی شامل ہیں،اس بات کا خاص طور ذکر کرتے ہیں کہ وہ ڈسپلن اور وقت کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ ان کے سابق اے ڈی سی گروپ کیپٹن آفتاب احمد بتاتے ہیں کہ ان کی کابینہ میں ایک دو وزیر وقت کی پابندی کے اتنے قائل نہیں تھے، وہ تاخیر سے آتے تو قائد انھیں ڈانٹ دیتے تھے۔ ایک وزیر تقریب میں یا میٹنگ میں ایک دو بار لیٹ ہوا تو قائداعظم نے انھیں اپنے طریقے سے سمجھایا، جب وہ بازنہ آیا اور تیسری بار ایک پارٹی میں تاخیر سے پہنچا تو قائدؒ نے سب کے سامنے کہا: ’’دیکھیے، اگر آپ وقت پر نہیں آسکتے تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ میری پارٹی میں بالکل نہ آیا کریں‘‘۔

جناح صاحب کے معمولات میں بڑی باقاعدگی تھی۔ وقت پر اُٹھنا، وقت پر دفتر جانا، اور وقت پر کام شروع کردینا۔ کھانے اور سونے کے اوقات بھی مقرّر تھے۔ ڈسپلن اور سیلف کنٹرول ان کی شخصیّت کے بڑے نمایاں پہلو تھے۔ انھیں اپنے اوپر اس قدر کنٹرول تھا کہ وہ اپنے جذبات ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ اے ڈی سی آفتاب احمد کہتے ہیں کہ قائد متکبّر نہیں ایک شفیق انسان تھے، لکھتے ہیں ’’میں اس وقت فلائٹ لیفٹیننٹ تھا اور چکلالہ میں تعینات تھا۔ ایک بار ایک سگنل آگیا کہ کانگریس کے صدر چکلالہ سے گزریں گے۔

بیس کمانڈر انھیں ریسیو کریں اور پھر انھیں سی آف کہیں۔ بیس کمانڈر اور میں وہاں پہنچ گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر کی حیثیّت سے چکلالہ بیس پر اترے۔ ہم نے انھیں سیلیوٹ کیا مگر انھوں نے ہم سے ہاتھ تک نہ ملایا اور چلے گئے۔

انگریز بیس کمانڈر کو بہت برا لگا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک بار قائداعظم ؒ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیّت سے چکلالہ بیس پر اترے، انگریز بیس کمانڈر اور میں جہاز سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، قائداعظمؒ باہر تشریف لائے، ہم نے اسی طرح انھیں بھی سلیوٹ کیا، وہ ہماری طرف آئے ہمارے ساتھ ہاتھ ملایا اور ہماری خیریت دریافت کی۔ جاتی دفعہ پھر وہ ہماری طرف آئے، ہمارے ساتھ باتیں کیں اور کہا، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ میرے استقبال کے لیے یہاں آئے۔ بیس کمانڈر نے قائداعظم کے روئیے کی بہت تعریف کی۔ سابق اے ڈی سی بتاتے ہیں:

’’قائدؒ کی ڈانٹ کا طریقہ بڑا منفرد قسم کا تھا، جب وہ کسی سے ناراض ہوتے تو نام کے ساتھ مسٹر لگادیتے۔ مثلاً آفتاب نہیں کہیں گے مسٹر آفتاب کہیں گے۔ ایک بار میری پیشی ہوئی جب میں اندر گیا تو فرمایا’’مسٹر آفتاب سٹ ڈاؤن‘‘۔ کہنے لگے ’’پتا ہے تمہارا بل کتنا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’جی میں نے ادا کردیا ہے‘‘ کہنے لگے ’’تمہارا بل زیادہ ہے اور اتنازیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ تمہارا رینک کیپٹن کا ہے، آپ کو اپنی ذات پر اس قدر خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ گھر والوں کو بھی بھیجنا چاہیے‘‘ چونکہ قائدِاعظم کفایت اور بچت پر یقین رکھتے تھے،اس لیے وہ اپنے عملے کی فضول خرچی کو بھی ناپسند کرتے تھے۔

قائدؒ اپنے آپ کو قوم کے ایک ایک پیسے کا امین سمجھتے تھے، اس لیے سرکاری پیسے کو اپنے ذاتی پیسوں سے کہیں زیادہ عزیز سمجھتے اور بڑی کفایت شعاری برتتے تھے۔ ایک بار کیبنٹ میٹنگ سے پہلے اے ڈی سی نے گورنر جنرل سے پوچھا ’’سر! کابینہ کے ارکان کے لیے چائے کے ساتھ کیا لوازمات منگوائے جائیں؟‘‘ اس پر قائد نے کہا ’’وہ گھر سے ناشتہ کرکے آئیں گے۔

 اس لیے میٹنگ میں کچھ بھی کھانے پلانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ لہٰذا جب تک بانیٔ پاکستان زندہ رہے ،کیبنٹ میٹنگ میں کھانوں اور کھابوں کی ریت نہیں پڑسکی۔ مجھے خود بھی اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا تجربہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ کس طرح افسران اور حکمران، غریب قوم کے پیسے کو شیرِ مادر سمجھتے ہیں اور کس طرح صاحبانِ اقتدار سرکاری فنڈز کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، مگر ہمارا قائد ہم سے بالکل مختلف تھا۔ اسے بددیانتی،بے اصولی، دروغ گوئی، قانون شکنی اور اسراف سے نفرت تھی ۔ وہ اقرباء پروری کو اسقدر ناپسند کرتے تھے کہ اُن کے سگے بھائی نے ان کے عہدے سے فائدہ اٹھانا چاہا تو اسے ملنے سے ہی انکار کردیا۔ جب کہ آج کے حکمران ۔ تو اپنے پورے خاندان بلکہ نسلوں تک کو سنواردیتے ہیں۔

ایک بار ایک اہم الیکشن میں مسلم لیگ کے ایک لیڈر نے کہا ’’سر! تیسرا امیدوار جو خاصے ووٹ خراب کرے گا، ہمارے حق میں بیٹھنے کے لیے تیار ہے مگر اسے کچھ پیسے دینے ہوں گے‘‘۔ یہ سنکر قائد نے تجویز دینے والے لیڈر سے ناراض ہوکر کہا ’’ہم ایسا کام ہرگز نہیں کریں گے جو قانون اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہو‘‘ آج کے سیاستدان تو کرپشن اور قانون شکنی کو سیاست کا لازمی حصّہ سمجھتے ہیں۔

قائدِ اعظم ؒ کے سابق اے ڈی سی جنرل گل حسن لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل کی حیثیّت سے وہ ایک بار ملیر کی طرف جارہے تھے کہ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک بند تھا لہٰذا ان کی کار رک گئی۔ میں کار سے اتر کر گیٹ کیپر کے پاس گیا اور اسے کہا کہ ابھی ٹرین تو نہیں آرہی، گورنر جنرل کو انتظار کرانا ٹھیک نہیں۔ اُس نے گیٹ کھول دیا۔ میں واپس آیا تو قائد سخت ناراض ہوئے اور کہا’’گُل اگر میں قانون کا احترام نہیں کروں گا تو پھراور کون کرے گا؟ آیندہ ایسی حرکت کبھی نہ کرنا‘‘ ایک عام سے قانون (minor law) کے لیے بھی ان کے دل میں احترام کا یہ عالم تھا۔

زیارت میں ان کی دیکھ بھال پر معمور نرس نے جب اپنے تبادلے کی بات کی تو اپنا بٹوا منگوا کر اسے خاصی رقم انعام کے طور پر دی مگر ساتھ ہی کہا کہ ’’گورنر جنرل کو پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے‘‘اس لیے کہ وہ آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے کوئی غلط روایت چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے مگر بعد والوں نے قائدؒ کی اچھی روایتوں کو بھی پامال کردیا اور چھوٹے اور بڑے قوانین کو پاؤں تلے روند ڈالا۔

 بلاشبہ وہ ہم جیسا نہیں تھا۔ وہ اپنی قوم سے بہت مختلف اور منفرد تھا۔ سیّد ہاشم رضا اگست 1947میں گورنر سندھ کے سیکریٹری تھے، وہ قائدؒ کی 7اگست 1947کو کراچی آمد کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں’’اُس روز لوگ صبح ہی ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے، شام تک ہر طرف انسانی سر ہی سر تھے۔ جہاز اترا تو مجھے یوں لگا جیسے لوگوں نے اپنے قائدؒ کا جہاز اپنے سروں پر اٹھا لیا ہے۔

قائد کی جھلک دیکھ کر لوگوں نے اتنی شدّت سے قائداعظم زندہ باد کا نعرہ لگایا کہ محاورۃً نہیں واقعتاً زمین وآسمان دہل گئے۔ لاکھوں انسان اپنے بلند کردار راہنما کو دیکھ کر وجد میں آگئے تھے‘‘۔ ملک میں صرف ایک تصویر ایسی ہے کہ جب کسی تقریب میں اسکرین پر نمودار ہوتی ہے تو امیر ہو یا غریب، ان پڑھ ہو یا پی ایچ ڈی، کلرک ہو یا چیف سیکریٹری ریڑھی والاہو یا ارب پتّی سب ایک جیسی عقیدت کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور تالیاں بجا کر اپنی دلی محبّت کا اظہار کرتے ہیں اور وہ تصویر صرف محمد علی جناحؒ کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں