لاہور:
رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ آپ نے مذاکراتی کمیٹی کی جو بات کی ہے پہلے دن سے میں کہہ رہا ہوں کہ مذاکرات ہونے چاہئیں، گفتگو سے مسائل کا حل نکلنا چاہیے۔
8 فروری کے الیکشن سے پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ بیٹھ جائیں، میڈیا کے ذریعے پر پاکستان کی بدنامی کرا لی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہاں پر اندرونی مداخلت کی بات نہیں ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھوں نے انسانی حقوق کی جو خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کو ایک دم سب کی نطروں میں لے آئے ہیں، ہم تو ملک کے ساتھ ہیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) علی گوہر بلوچ نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور ہم تمام ممالک کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات، اس کے اپنے قوانین، اس کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔
پاکستان کو وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی صورت میں دباؤ کا سامنا کرنا ہی پڑا ہے، ڈو مور کی پالیسی اکثر پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔
تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان چیزوں کو کوئی غیر اہم قرار دے سکتا ہے، دباؤ عمران خان سے زیادہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے آ رہا ہے۔
یہ دباؤ توآنے والے دنوں میں مزید بڑھے گا کیونکہ ابھی تو صرف 25 سزاؤں کا اعلان ہوا ہے، ابھی 80 یا 82 لوگ ہیں جن کو سزائیں ہونی ہیں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ عمران خان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کی انڈیکیشن ضرور ہے لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔