اسلام آباد:
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئندہ 3 سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 13 فی صد تک لے جائیں گے۔
وفاقی دارالحکومت میں وزیر مملکت علی پرویز، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کا کردار اس وقت انتہائی اہم اور کلیدی ہے۔ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 9 سے 10 فیصد ہے، جسے اگلے 3 سال میں 13 فیصد تک لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی آمدن اور اخراجات میں مطابقت ناگزیر ہے۔ٹیکس ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، ایف بی آر میں ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی مداخلت کم کریں گے، جس سے کرپشن اور ہراسمنٹ کم ہوگی۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہم نے اسٹکچرل اصلاحات کی بات کی ہے، جس پر کام جاری ہے ۔ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہدف ساڑھے 13 فیصد سے زائد کا ہے، جسے ہم 3 سال میں پورا کریں گے۔جو بھی نئے اقدامات کریں گے وہ ساتھ ساتھ شیئر کرتے رہیں گے کیوں کہ کسی بھی طرح کی اصلاحات میں لوگوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ہم ڈیجٹلائزیشن اور ہیومن مداخلت کو کم کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ریونیو کو بڑھانے سے متعلق اقدمات میں کلیدی اقدامات کیے جائیں گے۔ ہم نے مارچ ہی سے ڈیجٹلائزیشن پر کام تیز کردیا گیا تھا۔ پچھلے 3سے 4 ماہ میں ہم اب ڈیجٹلائزیشن پر عملدرآمد کو لے کر چل رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ دیانتدار ٹیکس پیئرز پر کم سے کم بوجھ آئے ۔ ٹیکس لیکیج کو روکنے کے لیے بھی اقدامات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس گیپ کو مناسب طریقے سے کم کر سکیں گے۔ عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ شوگر ، بیوریجز اور سیمنٹ سیکٹر کی ویلیو چین کو دیکھ رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم کل پرسوں یا مہنے ہفتے پر فوکس نہیں کررہے بلکہ ہمارا مقصد مستقبل میں ٹیکس شارٹ فال کے پائیدار حل کی طرف جانا ہے، عارضی مسائل کو فکس کرنے کی کوشش کریں گے، ہمیں سات ٹریلین ٹیکس لیکیج کا سامنا ہے جس کو کم کیا جاسکتا ہے، اس ٹیکس گیپ کو صرف اس سال نہیں بلکہ آئندہ پانچ سال کیلئے دیکھنا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل چکن اور دالوں کی قیمتوں کو دیکھا تھا، عالمی منڈی میں اگر قیمتیں کم ہورہی ہیں تو ہمارے ہاں کیوں بڑھ رہی ہیں، ای سی سی کے اجلاس میں بھی اس پر تفصیلی رپورٹ پیش ہوئی ایکشن لیا تو ان چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے بارے میں بہت کلیئر ہوں کہ اگر آئی ایم ایف کو ہم سرپرائز نہ دیں جو کچھ ان سے کہا کریں گے وہ نہ کریں تو درست نہیں، ہم نے آئی ایم ایف سے جو طے کیا ہے وہ کررہے ہیں، امید ہے ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام جاری رکھیں گے اور کامیابی سے مکمل کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کو ہر ای سی سی اجلاس کا ایجنڈا بنا رہے ہیں ہر اجلاس میں مہنگائی متعلق نمبرز کا جائزہ لے کر عمل درآمد کو دیکھا جائے گا، میڈل مین مہنگائی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ سیلز ٹیکس سے متعلق تمام سیکٹرز پر کام ہورہا ہے، گزشتہ سال 29 فیصد ٹیکس گروتھ ہوئی، آئی ایم ایف کے ساتھ جو بات کی جاتی ہے پوری کرتے ہیں،
آئی ایم ایف کو کوئی سرپرائز دینے کا قائل نہیں ہوں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے، ایف بی آر اپنے ٹیکس ہدف سے پیچھے ہے، آئی ایم ایف کو اگر کوئی سرپرائز نہ دیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، آئی ایم ایف کے ساتھ پورے پروگرام پر عمل درآمد کیا جائے گا، جب آئی آئم ایف جائزہ مشن آئے گا اس کے سے ساتھ ڈسکشن کریں گے، ٹیکس ریونیو بڑھانے ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے جو کچھ ہوسکا کریں گے۔
ٹیکسوں کا بوجھ ہر طبقے کو منصفانہ طور پر اٹھانا چاہیے، وزیر مملکت
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ عام آدمی پر سب سے بڑا ٹیکس مہنگائی ہے۔ اگر اس بیماری پر قابو پانا ہے تو خساروں پر قابو پانا ہوگا۔ آج مہنگائی 30، 40 فی صد سے کم ہوکر 5 فیصد پر آ رہی ہے۔ پاکستان کی آمدن کو بڑھانا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ ہر طبقے کو منصفانہ طور پر اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ہمیں خساروں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ مہنگائی اب کنٹرول میں آچکی ہے جس کے اثرات عام عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تمام سیکٹرز ٹیکس کا بوجھ اٹھائیں نہ کہ ایک ہی طبقے پر بوجھ ڈالا جائے۔ تمام اقدامات کا مقصد انکم ٹیکس کو ٹھیک سے دیکھا جائے اور اس کے مطابق ٹیکس لگایا جائے۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ٹیکس پیپرز سے متعلق ڈیٹا آگیا ہے اور اب ٹیکس نادہندہ سے متعلق بھی ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ۔ صاحب حیثیت لوگوں کو آگے آکر اپنا حصہ معیشت میں ڈالنا ہوگا۔ ایک لاکھ 90 ہزار ایسے لوگ ہیں جن کو ٹیکس نیٹ میں ہونا چاہیے۔ ریگولر ڈیٹا ایکسچینج ہوتا رہے گا تاکہ پالیسی اس کے مطابق بنے ۔ ایف بی آر میں کپیسٹی بلڈنگ سے متعلق کام ہوتا رہے گا۔
علی پرویز ملک نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی چلنا ہے لیکن کوالٹی گروتھ کو بھی دیکھنا ہے ہمیں معیشت کو دیرپا پائیدار کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہوم گراؤنڈ اصلاحات کا پلان تیار ہورہا ہے جلد اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
ایک لاکھ 69 ہزار مال دار افراد کو نوٹسز جاری کیے ہیں، چیئرمین ایف بی آر
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا فوکس ٹاپ 5 فیصد لوگ ہیں۔ ایک لاکھ 69 ہزار مالدار افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 38 ہزار افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرا دیے ہیں۔ ان افراد کا ڈیٹا مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ ان افراد نے 37 کروڑ 76 روپے کا ٹیکس ادا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر انڈسٹری کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ اس شعبے کی پیداوار کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں شوگر ملز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بتایا کہ ملک میں 49 لاکھ نان فائلرز کا ڈیٹا لیا گیا ہے، جنہیں مختلف زاویوں سے دیکھا گیا اور نوٹس جاری کیے گئے۔ اس میں ایک لاکھ 90 ہزار وہ شہری تھے جن سے ٹیکس لیا جانا چاہیے تھا جب کہ 38 ہزار لوگوں نے انکم ٹیکس متعلق فائلنگ کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فروری کے آخر تک شوکاز بھجوانے کے نمبرز میں اضافہ ہوجائے گا، جس کے بعد تقریباً 377 ملین ٹیکس مزید اکٹھا ہوا۔ کچھ سیکٹرز ایسے ہیں جن پر مزید مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے۔ شوگر انڈسٹری میں وڈیو کیمرا کے ذریعے مانیٹر کیا جارہا ہے۔ شوگر ملز پر سختی بڑھا دی گئی ہے، آئی بی اور دیگر آزاد ذرائع سے بھی معلومات لی جاتی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جی ایس ٹی مستقبل میں کم کریں گے لیکن فی الحال حل یہی ہے کہ دیگر جو براہ راست ٹیکس ہیں وہ وقت کے مطابق تبدیل ہوں گے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ شوگر میں سیلز ٹیکس پر عمل درآمد ہورہا ہے، پروڈکشن مانیٹرنگ پر تین چائنیز ہمارے ساتھ کام کررہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پی او ایس میں دو ایشوز آرہے ہیں، 23ہزار آوٹ لیٹس پی او ایس میں رجسٹرڈ ہیں مگر بہت سے پی او ایس میں نہیں ہیں، ہمارے پاس فیلڈ فورس کی کمی ہے توقع ہے فروری میں یہ کمی دور ہو جائے گی، مزید آڈیٹرز بھی آجائیں گے، ریٹیلرز پر فوکس کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں کوئی چیز ماورائے آئین نہیں ہو رہی، عطا اللہ تارڑ
وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ کوئی چیز ماورائے عدالت نہیں ہے، قوانین کی کمپلائنس ہورہی ہے، پاکستان میں کوئی چیز ماورائے آئین نہیں ہو رہی، دنیا بھر میں ملٹری کورٹس کا کنسیپٹ موجود ہے، ملزمان کو اپیل سمیت تمام حقوق دیے جا رہے ہیں پاکستان بین الاقوامی معاہدوں پر بھی عمل درآمد کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں کی مشاورت سے آگے چل رہے ہیں صوبوں کے ساتھ فسکل پیکٹ سائن ہوگیا ہےاس پر عمل درآمد مختلف اسٹیج پر ہے۔