رزق حلال کی فضیلت، ہوس دولت کی مذمّت

’’اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری بھی چاہے گا اور آدمی کا پیٹ کوئی چیز بھی نہیں بھر سکتی مگر قبر کی مٹی۔‘‘


فوٹو : فائل

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے۔‘‘ (رواہ البیہقی)

اچھی نیت سے، نیک مقصد کے لیے دنیا کی دولت حلال ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا صرف جائز ہی نہیں بل کہ بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے سے حاصل کرے اور اس مقصد کے لیے حاصل کرے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے دوسروں سے مانگنے سے بچار ہے، اپنے اہل و عیال کے لیے روزی اور آرام و آسائیش کا سامان مہیا کرسکے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی احسان اور اچھا سلوک کرسکے تو ایسا شخص قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس شان کے ساتھ حاضر ہوگا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہُوا اور روشن ہوگا۔‘‘

اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے ہی سے حاصل کرے لیکن اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ بہت بڑا مال دار ہوجائے اور اس دولت مندی کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں اپنی شان اونچی کرسکے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے دولت حاصل کرے۔ ُتو ایسا شخص قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اﷲ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوں گے۔‘‘

مال و دولت کی حرص عام انسانوں کی فطرت میں داخل ہوتی ہے، اگر دولت سے ان کا گھر تو کیا جنگل اور صحرا بھی بھرے ہوئے ہوں تب بھی اس انسان کا دل قناعت نہیں کرتا۔ یہ انسان اس میں اضافہ اور زیادتی چاہتا ہے زندگی کے آخری سانس تک اس کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے۔

عبداﷲ بن عباسؓ، رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری بھی چاہے گا اور آدمی کا پیٹ کوئی چیز بھی نہیں بھر سکتی مگر قبر کی مٹی۔‘‘

دولت کی ہوس جہاں انسان کے لیے دنیا کی بربادی کا نشان ہے وہاں آخرت کی ناکامی ہے لیکن یہی دنیا اور اس کی دولت اﷲ کے احکام کے مطابق استعمال کی جائے تو وہ عبادت بن جاتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ نے جو احکامات دولت کے بارے میں عطا فرمائے ہیں ان کا تعلق اعتدال اور میانہ روی سے ہے۔ جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان دولت کو جائز حقوق و فرائض پورا کرنے میں بھی صرف نہیں کرتا تو اس سے بخل پیدا ہوتا ہے اور ایسے شخص کو بخیل کہا جاتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بخل اور ایمان کسی مومن بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘ اور اگر انسان بے جا خرچ کرنا شروع کردے تو اسے اسراف اور فضول خرچی کہتے ہیں، جس سے اﷲ رب العزت نے منع فرمایا: ’’کھاؤ، پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔‘‘

اس سے معلوم ہُوا کہ اگر مناسب جگہ بھی نہ خرچ کیا جائے تو بخل ہے اور اگر بے جا خرچ کیا جائے تو فضول خرچی ہے۔ ان دو کے درمیان انفاق فی سبیل اﷲ یعنی اﷲ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اور یہی خرچ کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔

علماء نے اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے کی وضاحت فرمائی ہے کہ اگر اﷲ کے بتائے ہوئے حقوق پر خرچ کیا تو یہ اﷲ کے لیے خرچ کیا حتیٰ کہ اپنی جان پرا پنے گھر والوں پر اپنے بچوں پر خرچ کرنا بھی اﷲ ہی کی خاطر ہوتو وہ بھی عبادت ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ایک دینار تم نے اﷲ کے راستے میں خرچ کیا ، ایک دینار کسی غلام کو آزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار مسکینوں پر خرچ کیا اور ایک دینار گھر والوں پر خرچ کیا۔ تو وہ دینار جو گھر والوں پر خرچ کیا اس کا درجہ سب سے زیادہ ہے۔‘‘ حتیٰ کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’تم اﷲ کی رضا اور خوش نُودی کی خاطر اگر اپنی بیوی کو ایک لقمہ بھی کھلاؤ گے اﷲ اس کا بھی اجر دے گا اور وہ صدقہ ہے۔‘‘

یہ بات درست ہے کہ سادگی ایمان ہی کا حصہ ہے لیکن اﷲ تعالیٰ جب نصیب فرمائے اور وسعت و گنجائش ہوتو بدحال اور میلے کچیلے کپڑوں میں رہنا درست نہیں۔ ابوالاحوص تابعیؒ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا تو میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ تو آپؐ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! اﷲ کا فضل ہے۔ آپؐ نے پوچھا: کس قسم کا مال ہے۔ میں نے عرض کیا: مجھے اﷲ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے، اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور غلام باندیاں بھی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جب اﷲ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر اﷲ کے انعام و احسان کا اثر تم پر ضرور نظر آنا چاہیے۔

اﷲ تعالیٰ جب بندے کو دے بندہ اسے جائز خرچ کرے، چاہے اپنی ذات پر خرچ کرے تو اﷲ اسے پسند فرماتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندے پر اپنی دی ہوئی نعمت کا اثر دیکھے۔‘‘اس سے معلوم ہُوا کہ بخل اور کنجوسی کی وجہ سے یا صرف طبیعت کے گنوار پن کی وجہ سے صاحب استطاعت ہونے کے باوجود گھٹیا حالت میں رہنا درست نہیں۔ اﷲ کی دی ہوئی نعمت اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر خرچ کرنا یہ بھی شُکر کا ایک انداز ہے۔

انسان کو کس حد تک خرچ کرنا چاہیے، وہ حدود اﷲ اور اس کے رسول کریم ﷺ نے متعین فرما دی ہیں۔ مفہوم: ’’کھاؤ، پیو اور خیرات کرو، اور کپڑے بنا کر پہنو بہ شرط یہ کہ اسراف اور نیّت میں فخر اور تکبّر نہ ہو۔‘‘

رسول اﷲ ﷺ بہ ذات خود عام طور پر معمولی سوتی قسم کے کپڑے پہنتے تھے۔ بسا اوقات ان میں کئی پیوند بھی ہوتے تھے لیکن جب وسعت ہوئی تو دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے قیمتی جبے بھی زیب تن فرما لیتے تھے۔ کئی کئی روز فاقہ سے بھی گزرتے تھے، دو دو ماہ تک آپ ﷺ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور جب کھانے میسر ہوتے تو عمدہ کھانے بھی تناول فرما لیتے۔ خرچ کرنے کا صحیح اور اسلامی انداز واضح ہونے کے بعد آج عام معاشرہ کی طرف دیکھنا ہوگا۔

جہاں یہ انسان عام شادی بیاہ رچاتا ہے، ہزاروں روپے آتش بازی کی نذر کردیتا ہے، گھروں اور دیواروں کو روشنیوں سے جگ مگانے پر لاکھوں روپے بہا دیتا ہے مہمانوں سے کئی گنا زیادہ کھانا پکاتا ہے۔ یہ تمام کام یہ انسان صرف اپنی ناک اونچی رکھنے اور اپنے نام و نمود کی خاطر کرتا ہے یہی وہ غلط انداز ہے، جہاں ایک لڑکی کی شادی کرتا ہے اتنی ہی رقم میں عمدہ طریقے سے دس لڑکیوں کی شادی کرسکتا تھا۔ گھر میں چند بلب اور ٹیوب لائٹوں سے گزارا ہوسکتا ہے لیکن یہ انسان ایک کمرے میں کئی بلب روشن کرتا ہے۔ چند کمروں میں چند افراد رہتے ہیں لیکن ہر کمرے میں ایرکنڈیشنڈ چل رہا ہے یہی پیسے کے خرچ کرنے کا غلط انداز ہے۔

اسلام نے خرچ کرنے کی جگہیں بھی بالکل واضح طور پر سامنے رکھی ہیں۔ اپنے گھر والوں پر اپنی ذات پر ہمسایوں پر رشتہ داروں پر خرچ کیجیے۔ بہ قدر ضرورت اور بہ قدر حق اور زکوٰۃ و صدقات جو اﷲ نے بندے پر حکم جاری فرمائے ہیں۔

 ان کے لیے خدائے برتر نے جگہیں مقرر فرما دی ہیں، جن میں غرباء، مساکین، قرض دار، مسافر وغیرہ شامل ہیں لیکن آج کے معاشرہ میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم نشان دہی فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کو پہچان کر ان کی مدد کرنا اعلیٰ ترین اخلاقی خوبی ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’ایسے لوگ جنہیں ناواقف، مال دار سمجھتے ہیں لیکن آپ ان کو نشانیوں سے پہچان سکتے ہیں یہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘

ان لوگوں کو ہمارے معاشرے میں سفید پوش کہا جاتا ہے جو کسی بھی حالت میں مانگنا گوارا نہیں کرتے حتیٰ کہ انہیں یہ بھی اندازہ ہوجائے کہ دینے والا غریب سمجھ کر د ے رہا ہے تو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہدیے اور تحفوں اور اشیائے ضرورت کو پیش کرکے ان پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

جب انسان کسی پر خرچ کرے تو خرچ کرنے کے ان آداب کو ضرور ملحوظ رکھے جو اﷲ رب العزت نے فرمائے۔ سورۃ بقرۃ میں اﷲ رب العزت نے خرچ کرنے کے یہ آداب بیان فرمائے، مفہوم: کہ جب کسی پر کچھ خرچ کریں تو احسان نہ جتلائیں اور رقم خرچ کرکے اسے دکھ نہ دیں، اور ریاکاری سے خرچ نہ کیا جائے اگر دکھاوے کے لیے خرچ کیا تو اﷲ کے یہاں اس کا کوئی اجر نہیں۔

اﷲ رب العزت ہمیں رزق حلال حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، اور ہمارے رزق میں برکت نصیب فرمائے، اور پھر اسے خرچ کرنے کا سلیقہ بھی عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں