سترہ سال قبل آج ہی کے مہینے اور آج ہی کی تاریخ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک منتخب وزیر اعظم کی منتخب وزیر اعظم بیٹی کو شہید کر دیا گیا تھا ۔لاریب وہ ایک سیاہ دن تھا اور آج تک اس دن کی سیاہی مدہم نہیں ہو سکی۔27دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو کا یومِ شہادت!بے نظیر بھٹو کے بے نظیر والدِ گرامی کو جن قوتوں نے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے شہید کیا تھا ، اُن مستقل قوتوں کی کوشش اور سازش تھی کہ اُن کی پارٹی ، اُن کے خانوادے اور اُن کے نام کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے یوںمٹا دیا جائے کہ کوئی اُن کا نام لیوا ہی نہ رہے ۔
یہ کوششیں کرنے والے خود مٹ گئے مگر زیڈ اے بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام، جماعت اور کام مٹائے نہیں جا سکے ۔جو مٹانے کی کوششیں کررہے تھے اور دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے کہ بھٹو کی موت کے بعد اُن کا نام بھی لینے والا کوئی نہیں رہے گا، وہ خود یوں مٹے ہیں کہ اُن کے مرنے کا دن آتا ہے تو کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ۔ مگر زیڈ اے بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایامِ شہادت بھی ذوق و شوق سے منائے جاتے ہیں اور ایام ولادت بھی ۔ اور زندہ ہونا کسے کہتے ہیں؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے والوں کی بھرپور کوشش تھی کہ چند دنوں بعد اُن کی یاد کا نقش دلوں سے محو ہو جائے گا کہ یہی فطرت کا اصول رہا ہے ۔ مگر جناب زیڈ اے بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی غیر فطری اموات میں فطرت کے اصول ہار گئے ۔گزشتہ ساڑھے چار عشروں سے بڑے بھٹو صاحب کی شہادت کا نقش بھی ہنوز تازہ ہے اور اُن کی عظیم المرتبت صاحبزادی کا بھی ۔ کیسی عجب بات ہے کہ بعض اوقات شاعروں کی کہی گئی بات تاریخ کے صفحات پر حقیقت کا رُوپ دھار کر اَمر ہو جاتی ہے ۔ یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے یہ اشعار کہے ہی گئے تھے اس خاص شخصیت کے لیے تھے ۔
شاعر نے کہا تھا: ’’جس دَھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے/ یہ جان تو آنی جانی ہے، اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ شہید جس سج دھج سے مقتل میں اُتریں ، دیکھ اور سُن کو انسان حیرتوں میں ڈُوب جاتا ہے ۔
جانتی تھیں کہ اُن کی حریف طاقتور اور سرکش قوتیں اُن کی جان کے درپے ہیں ، مگر سب سے لاپروا ہو کر اُنھوں نے میدانِ کارزار میں جرأت کے ساتھ قدم رکھا۔ عزم اور عزیمت کے ساتھ جان دے دی مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے ۔ قاتل قوتیں شرمندہ ہو گئیں مگر بے نظیر نے شہادت کا بے نظیر تاج پہن لیا ۔ ہم آج اُنہیں فخر اور سرشاری سے یاد کررہے ہیںاور سب بیک زبان کہنے پر مجبور ہیں: ایسی چنگاری بھی یارَب اپنے خاکستر میں تھی !
یہ ایک ناقابلِ فراموش المیہ ہے کہ پاکستان کے کئی وزرائے اعظم طاقتوروں اور ہمہ مقتدرین کی سازشوں اور نفرتوں کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ کوئی قتل ہُوا ، کوئی لمبے عرصے کے لیے جلاوطن ہُوا ، کوئی قیدو بند کی سزائیں بھگتا اور کوئی اپنے منتخب اقتدار سے محروم ہُوا۔ اِن سب کو محروم کرنے والی طاقتیں مگر اپنی جگہ پر چٹان کی طرح قائم رہیں ۔ کوئی اُنہیں سرِ مُو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہ سکا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک سفاک باب ہے۔ اِس باب کے کئی صفحات خون سے رنگے ہیں۔
سب سے پہلے پاکستان کے اوّلین وزیر اعظم، لیاقت علی خان، کو قتل کیا گیا ۔ پھر حسین شہید سہروردی کو بیروت میں مار ڈالا گیا ۔ سہروردی بارے کہا گیا کہ اُنہیں دل کا دَورہ پڑا تھا ، مگر بنگلہ دیشی ( کہ حسین شہید سہروردی بنگالی تھے) آج بھی اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اُنہیں قتل کیا گیا تھا کہ وہ اُس وقت کے ایک مقتدر ترین شخص کی منہ زور ہوسِ اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئے تھے۔
وِکی پیڈیا میں یہ الزام اب بھی موجود ہے ۔ اگر پاکستان کی ابتدائی تاریخ ہی میں یہ دونوں قتل روک دیے جاتے یا اُن کے قاتلوں کو سزائیں دے دی جاتیں تو ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کبھی معرضِ عمل میں نہ آتا۔آج تو ہماری سب سے بڑی عدالت بھی تسلیم کررہی ہے کہ زیڈ اے بھٹو کے ساتھ صریح زیادتی ہُوئی تھی۔ مگر اب تاسف کا فائدہ؟ عدالتی تاسف اب زیڈ اے بھٹو کا خون واپس تو نہیں لا سکتا ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو حیات تھیں تو بھی اُنہیں مقتدر اور ہمہ دَم سازشی قوتوں نے امن چَین سے جینے دیا نہ سیاست کرنے دی ۔ اپنے عظیم والد کی غیر فطری موت کے بعد وہ مسلسل امتحانوں اور آزمائشوں میں ڈالی جاتی رہیں۔ اُنہیں ڈرانے ، دھمکانے اور میدان سے بھگانے کی ہر ممکنہ کوشش اور حربہ بروئے کار لایا گیا مگر وہ ڈٹی رہیں ۔ پہلی بار اقتدار میں آئیں تو مذہبی قوتوں اور مذہبی شخصیات کو بھی اُن کے خلاف میدان میں اُتارا گیا۔ پھر بھی بات نہ بنی تو الزامات اور تہمتوں کی بارشیں برسائی گئیں۔ پھر بھی بات نہ بنی تو بزورِ قوت اقتدار سے اُنہیں نکال باہر کیا گیا ۔ وہ دوسری بار منتخب ہو کر وزیر اعظم کے تخت پر فروکش ہُوئیں تو بھی سازشی اور ہوسناک قوتیں تعاقب میں رہیں۔
ایک بار پھر اقتدار سے نکال باہر کی گئیں ۔ مقتدرین اور ہمہ طاقتور پھر بھی اُنہیں بطورِ لیڈر حزبِ اختلاف بھی قابلِ برداشت نہیں تھیں۔ اُن کے مخالف میڈیا نے بھی اُنہیں میدان سے بھگانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ نام نہاد جہادِ افغانستان کی مبینہ باقیات کو بھی اُن کے خلاف بھڑکایا گیا ۔ حتیٰ کہ 27دسمبر2007 کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ، جسمانی طور پر، معدوم کر دیا گیا۔مخالفین کے سینے ٹھنڈے ہو گئے ۔ مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے چہرے پر ایک مستقل سیاہ داغ ثبت ہو گیا جسے کبھی مٹایا نہیں جا سکے گا۔
شہید بی بی صاحبہ کے بہیمان قاتل کون تھے ؟ بی بی سی کی کئی رپورٹیں آج بھی اُن کی جانب انگشت نمائی کرتے ہُوئے رہنمائی کرتی ہیں ۔ مگر اُن پر ہاتھ کون ڈالے ؟ پچھلے 17برسوں کے دوران شائد کئی چہرے مر کھپ گئے ہیں ۔کئی زندہ ہوں گے تو اُن کی زندگیاں موت سے بدتر ہیں ۔ مگر محترمہ بے نظیر بھٹو مر کر بھی زندہ ہیں ۔ اور یہ حقیقت قاتلانِ بے نظیر کے سینے پر مونگ دَل رہی ہے۔
زیڈاے بھٹو بھی زندہ ہیں،بے نظیر بھٹو بھی اور اُن کی پارٹی اور وابستگان بھی۔ جنابِ آصف علی زرداری کا صدرِ مملکت ہونا، بلاول بھٹو زرداری کا رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونا، آصفہ بھٹو زرداری کی اسمبلی میں موجودگی ، صدرِ مملکت کے دو محترمہ ہمشیرگان کا وزیر اور رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کا شاندار معنی یہ ہیں کہ بے نظیر بھٹو زندہ ہیں اور اُن کی پارٹی بھی ۔ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مسلسل اقتدار میں رہنے کا مطلب کیا ہے ؟
یہ دراصل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حریف ، قاتل اور مخالف قوتوں کی شکستِ فاش ہے ۔ آج 27دسمبر 2024 کو گڑھی خدا بخش میں حیات بخش فضاؤں کا پھر سے چلن ہے ۔ شہید بی بی صاحبہ کی پارٹی کے پرچم لہرا رہے ہیں ۔ لاہور تا گڑھی خدا بخش ’’سفر بے نظیر‘‘ میں ہزاروں جیالے اور لیڈران مکمل تیاریوں کے ساتھ پہنچ کر خیمہ زَن ہو چکے ہیں ۔
سب شہادتِ بے نظیر بھٹو کی ناقابلِ فراموش یاد میں کشاں کشاں پہنچے ہیں ۔یہ دل افروز مناظر در حقیقت اِس امر کے مظہر ہیں کہ شہید بی بی صاحبہ میدانِ وفا میں سرخرو ہُوئیں ۔وہ میدانِ وفا میں جان سے تو ہار گئیں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کو حریف قوتیں مات نہیں دے سکیں ۔ سترہ سال گزرنے کے باوصف اُن کی شان آج بھی سلامت ہے ۔