بحالئ جمہوریت کےلیے سرگرم عمل امر کردار، محترمہ بے نظیر بھٹو

بے نظیر بھٹو اپنی توانا آواز سے ملک دشمن قوتوں کو آخری سانس تک للکارتی رہیں


سحر حسن December 27, 2024

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ وہ تو ہر ذی روح کو ہر حال میں آتی ہے۔ مگر بعض ہستیوں کی زندگی اور موت دونوں ہی قابلِ رشک بن جاتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو بھی ایک ایسی ہی غیر معمولی، مدبر اور عالمی سطح کی لیڈر تھیں، جو اپنے نظریات کی آبیاری اور عوام کی ہمت بندھانے کےلیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے امر ہوگئیں۔

آج جمہوریت کی علم بردار، دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ہم سے بچھڑے 17 برس بیت گئے، مگر ان کے ناقابلِ فراموش کارہائے نمایاں دنیا کے سیاسی افق پر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔

دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے محض 35 برس کی عمر میں پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیا۔

بے نظیر بھٹو نے 21 جون 1953 کو کراچی میں ذوالفقار علی بھٹو کے گھر میں جنم لیا۔ ان کی والدہ نصرت اصفہانی کا تعلق ایران سے تھا۔ بے نظیر کی مادری زبان فارسی تھی۔ سفارتی میدان میں اپنی صلاحیتیں منوانے کی خواہش مند ’’پنکی‘‘ کے والدین یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی سیاست کی پُرخار وادی میں قدم رکھے۔ مگر کاتبِ تقدیر کو، یہ کہاں منظور تھا۔

بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم کراچی/ راولپنڈی اور اس کے بعد ریڈ کلف کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ محترمہ تعلیم مکمل کرکے 1986 میں پاکستان پہنچیں تو ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔ ملکی باگ ڈور ایک آمر نے سنبھال لی تھی۔ 90 دن میں الیکشن کا ڈھونگ رچانے والا ایک دہائی سے زائد وقت تک حکومت پر قابض رہا۔ منتخب وزیراعظم کو معزول کرنے کے بعد من گھڑت الزام لگا کر انہیں کال کوٹھری میں بند کردیا گیا اور پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ایسی کٹھن صورتحال میں بے نظیر بھٹو کو اپنی والدہ کے ساتھ پارٹی کی قیادت سنبھالنا پڑی۔

بے نظیر بھٹو کی شادی 18 دسمبر 1987 کو آصف علی زرداری کے ساتھ انجام پائی تھی۔ ان کے تین بچے ہیں، بیٹا بلاول بھٹو زرداری، بیٹیاں بختاور اور آصفہ۔ بے نظیر بھٹو 1988 اور 1993 میں وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئیں۔ دورانِ سیاست وہ نظربند اور جلا وطن بھی رہیں۔ انہوں نے پاکستانی سیاست میں باہمی اتفاق/ مفاہمت کی فضا قائم کرنے کی غرض سے میثاقِ جمہوریت کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ محترمہ نے بحیثیت مصنفہ کمال کی کتابیں بھی لکھیں۔

طویل جلاوطنی کے بعد جب وہ 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس پہنچیں تو ان پر پہلا حملہ ہوا، جس میں 200 سے زائد جاں نثار ساتھی شہید ہوگئے۔

27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہادت سے قبل اپنے تاریخی خطاب میں بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ: ’’ہم نے اپنی زندگیاں، اپنی آزادی، اپنی جوانی، اپنا ذہنی سکون، سب جمہوریت کےلیے قربان کردیا ہے۔ پاکستان کی ترقی اورعزت جمہوریت میں ہے۔ میں پاکستان کےلیے جان بھی دے سکتی ہوں۔‘‘

محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی، انہوں نے اپنی زندگی میں بڑے دکھ سہے۔ محترمہ نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت، ایک اور بھائی مرتضٰی بھٹو کے سرِ عام قتل جیسے بڑے دکھ جھیلے۔ یہ ایسے صدمے ہیں جنہیں سہنا آسان نہیں ہوتا۔

بے نظیر بھٹو کے سیاسی سفر، کردار، عملی جدوجہد کو دیکھ کر بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتہائی پختہ اور جرأت مند سیاست دان تھیں۔ انہوں نے اپنے دکھوں کو عوام کے دکھوں سے جوڑ کر طاقت میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ اپنی توانا آواز سے ملک دشمن قوتوں کو آخری سانس تک للکارتی رہیں۔

27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کی بے مثال بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کے ایک سفاکانہ حملے میں شہید ہوگئیں اور بحالئ جمہوریت کی مشعل روشن کرتے کرتے تاریخ کا ایک امر کردار بن گئیں، جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا 
وہ شان سلامت رہتی ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں