ملتے جلتے خیالات

گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا


سعد اللہ جان برق December 28, 2024
[email protected]

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پشاور میں پہلی بار دو ڈاکٹروں نے ’’بنگلے میں‘‘ پرائیوٹ کلینک کا آغاز کیا تھا اور سولہ روپے فیس لیتے تھے ان سولہ روپوں کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہماری تنخواہ(120) روپے ماہانہ تھی۔ان میں سے ایک کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن مشہوری’’ڈاکٹرقضا‘‘کے نام سے تھی۔خوش قسمتی سے ہمیں ایک ایسا آدمی مل گیا جس کے ڈاکٹر قضا کے ساتھ تعلقات تھے یہ ہمارے دفتر کے نیچے ایک میڈیسن کی دکان چلانے والا تھا۔

اس کی مدد سے ہم نے ڈاکٹر قضا سے انٹرویو کا وقت لے لیا تھا۔ہم جب اس کے کلینک میں پہنچے تو وہ ایک مریض کو سامنے بٹھائے ہوئے مریض سے کچھ کہہ رہا تھا۔لیکن ڈاکٹر نے ان کی سنی کو ان سنی کرتے ہوئے ہمیں توجہ دی، اس دوست سے نہایت گرم جوشی کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔اور پھر باتیں کرتے ہوئے سامنے پڑے پرچے پر کچھ لکھنے لگا کافی دیر تک وہ دونوں محاذوں پر مصروف رہا اس دوران میں ہم سٹول پر بیٹھے ہوئے مریض کو بھی دیکھتے رہے۔

جو ڈاکٹرصاحب،کہہ کر ڈاکٹر سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا تھا لیکن ناکام رہ جاتا تھا۔کیونکہ ڈاکٹر اپنے دوست کے ساتھ باتیں کرنے اور پرچہ لکھنے میں مصروف تھا۔ موضوع بحث کرکٹ تھا، آخر ڈاکٹر نے پرچے کی لکھائی ختم کی اور پرچہ مریض کے حوالے کرتے ہوئے کہا یہ دوائیں لے لو ایک ہفتے بعد پھر آنا۔ مریض نے پرچہ لے تو لیا لیکن ہاتھ میں پکڑے رہا۔  پھر اچانک اونچی آواز بولنے لگا۔ڈاکٹر صاحب آپ نے نہ تو میرا معائنہ کیا نہ بات سنی اور یوں ہی پرچہ لکھ دیا۔ڈاکٹر نے کہا میں نے تمہیں دیکھا بھی اور تمہاری باتیں بھی سن لیں۔مریض بولا۔مگر کیسے آپ تو کرکٹ کی باتوں میں مصروف تھے۔

ڈاکٹر نے ہنس کر مریض کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا بابا یہ ہمارا تجربہ ہے کہ جیسے ہم گاڑی بھی چلارہے ہوتے ہیں اور ریڈیو بھی سن رہے ہوتے ہیں۔ مریض کھڑا ہوگیا ہاتھ پکڑے پرچے کو اس کی میز پر رکھتے ہوئے بولا۔تو یہ لو اپنا یہ پرچہ۔میں نہ موٹر ہوں اور نہ ریڈیو۔اور تیزی سے باہر نکل گیا ڈاکٹر تھوڑی دیر کھسیانی سی ہنسی ہنستا رہا پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر بولا۔اچھا فرمایئے آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ہم نے ابتدا کی، چند سوالات ادھر ادھر کے کیے اور اصل سوال داغ دیا۔ڈاکٹر صاحب میں نے آپ کے لکھے ہوئے پرچے اس کی دکان میں دیکھے ہیں، بڑے گراں بہا پرچے ہوتے ہیں۔

ہاں ڈاکٹر نے کچھ فخر سے کہا۔میرے پریسکرپشن مہنگے تو ہوتے ہیں۔تو یہ بتائیں کہ آپ نے پرچہ لکھتے ہوئے کبھی کسی مریض سے اس کی مالی حالت کے بارے میں پوچھا کہ وہ یہ دوائیں خرید بھی سکتا ہے یا نہیں؟کیوں پوچھوں؟  ڈاکٹر نے رکھائی سے کہا۔جب جان پر بن آتی ہے تو وہ کچھ بھی کرکے دوائیں خریدے گا، قرض لے گا یا کچھ بھی بیچنے کو تیار ہوجائے گا۔جان بڑی پیاری ہوتی ہے۔

اچانک ہمارے دماغ میں ایک خیال کلک ہوا اور ایک پرانا بھولا بسرا منظر یاد آگیا۔اس وقت ہمارے گاؤں کا ایک عام کسان اغوا ہوگیا تھا اور ہم ایک جرگے میں ایک قبائلی علاقے میں گئے تھے تاوان کے سلسلے میں۔بات چیت کرنے والے ملک نے تاوان کی بہت بڑی رقم بتائی۔

اس ملک سے ہماری تھوڑی بہت دوستی اور تکلف بھی تھا۔ اس لیے کہا، تم نے اتنا بڑا تاوان مانگتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ مغوی کا خاندان اتنا تاوان ادا بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔پہلے تو ملک نے یہ بتایا کہ تاوان کی رقم کے کتنے حصہ دار ہوتے ہیں۔بولا جب کوئی اغوا کار گروپ کسی کو اغوا کرلیتا ہے تو وہ اسے اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ آگے کسی اور طاقتور گروپ کو فروخت کردیتا ہے وہ گروپ بھی اگر اس پوزیشن میں نہ ہو کہ مغوی کو رکھ سکے اور تاوان کا معاملہ نپٹائے تو وہ بھی اسے کسی اور زیادہ طاقتور گروپ یا ملک کو فروخت کرتا ہے یوں جیسے حصے دار بڑھتے جاتے ہیں مغوی کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہیں پھر ہم جیسے کسی درمیانی آدمی کے ذریعے سودا ہوجاتا ہے۔

میں ابھی کچھ اور پوچھنے والا تھا کہ وہ خود سے تفصیل بتانے لگا کہ اصل اغوا کرنے والوں کو اس رقم کا تھوڑا حصہ ملتا ہے جو وصول کی جاتی ہے۔کیونکہ اس میں اور بھی بہت سے ساجھے داروں کے حصے ہوتے ہیں یوں سمجھ لو کہ اس تاوان کی رقم کے حصے گورنر اور صدر تک’’بالواسطہ‘‘ پہنچتے ہیں۔اس نے اور بھی بہت ساری تفصیلات بتائیں جو بتانے کی نہیں لیکن یوں سمجھ لیں کہ رقومات کی بہت ساری سیڑھیاں نیچے زمین سے آخری چھت تک جاتی ہیں۔

چونکہ درمیانی آدمی تھا اس لیے قانون توڑنے والوں اور قانون نافذ کرنے والوں دونوں کے بارے میں وسیع علم رکھتا تھا۔معلوم تو بہت کچھ ہوا لیکن میرا سوال ابھی باقی تھا اور یہ تقریباً وہی سوال تھا جو میں نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔میں نے پوچھا کہ تم لوگ اکثر ایسے لوگوں کو اغوا کرتے ہو جو درمیانے یا بالکل غریب طبقے سے ہوتے ہیں بہت بڑے بڑے سرمایہ داروں کو کیوں اغوا نہیں کرتے کہ ایک ہی کیس میں بہت بڑی رقم مل جائے۔ وہ قہقہہ مار کر بولا، بڑے لوگوں کے پیچھے بہت بڑی کوششیں ہوتی ہیں جو بعض اوقات خطرناک ثابت ہوجاتی ہیں اس سے بہتر ہے چھوٹے لیکن بلا خطرے والے کیس کیے جاتے ہیں۔

وہ ٹھیک ہے لیکن کبھی سوچا ہے کہ ان لوگوں کے پاس اتنی رقم ہے بھی یا نہیں یا فراہم کربھی سکتے ہیں یا نہیں۔سنجیدہ ہوکر بولا جب جان پر بن آتی ہے تو کہیں سے کہیں کسی نہ کسی طرح اپنی جان بچا لیتے ہیں، سود پر قرض لے کر ،کھیت بیچ کر زیورات بیچ کر یہاں تک کہ گھر بیچ کر بھی۔اور اب میں ڈاکٹر قضا کے کلینک میں بیٹھ کر بھی وہی بات سن رہا تھا،جب جان پر بن آتی ہے،جب موت سامنے ہو تو آدمی بخار کو خوشی خوشی قبول کرلیتا ہے، ڈاکو اور ڈاکٹر کے خیالات آپس میں کتنے ملتے جلتے ہیں،نشتر اور خنجر ایک ہی لوہے کے بنے ہوتے ہیں اور قاتل و مسیحا بھی ایک جیسی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں

گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |