اسلام آباد:
وفاقی کابینہ نے جمعے کوایک آرڈیننس جاری کرنے کی منظوری دی۔
جس کے تحت حکومت کو قرضے دے کر حاصل ہونے والے بینکوں کے منافع پر 15 فیصد اضافی ٹیکس ختم کردیاجائے گاجبکہ محصولات میں کمی کی تلافی کیلیے ان کے اسٹینڈرڈ انکم ٹیکس کی شرح میں 5فیصد اضافہ کرتے ہوئے 44 فیصد کر دی گئی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور وفاقی حکومت کے درمیان 15 فیصد ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ٹیکس کے معاملے پر طے پانے والے معاہدے کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ اس نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2024ء مالی سال کے اختتام سے چار دن قبل جاری کرنے کی منظوری دے دی۔آرڈیننس نے ماضی کے بند لین دین کو تحفظ فراہم کیا ہے۔
جہاں وزیر اعظم شہباز شریف نے بینکوں کے ساتھ معاہدے کی منظوری دی، وہاں انہوں نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جس نے صرف 5 ماہ میں انکم ٹیکس کی مد میں 198 ارب روپے دیئے۔ پاکستان کے طاقتور کمرشل بینکوں کو اضافی ٹیکس کے ذریعے جرمانے کئے جانے کے خوف کے بغیر حکومت کو بیلنس شیٹ کا 100 فیصد قرض دینے کیلئے بونس اور آزاد ہاتھ دیا گیا ہے۔
ان تبدیلیوں کے مطابق بینکوں پر 10 سے 15 فیصد اضافی انکم ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بینکوں کو یہ ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت تھی، اگر حکومت کو ان کا قرضہ ایک مقررہ حد سے زیادہ ہو۔اس کے بدلے میں 31 دسمبر کو ختم ہونے والے اس ٹیکس سال کیلئے بینکوں کیلئے سٹینڈرڈ انکم ٹیکس کی شرح 39% سے بڑھا کر 44% کر دی گئی۔ یکم جنوری سے شروع ہونے والے ٹیکس سال 2026 ء کیلئے بینک کی شرح گھٹ کر 43% ہو جائے گی۔
آرڈیننس کے مسودے کے مطابق ٹیکس سال 2027ء اور اس کے بعد کی شرح 42 فیصد ہوگی۔ ٹیکس کی شرح میں 44 فیصد اضافے سے حکومت کو بدھ سے قبل 65 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں ملنے کی توقع ہے۔ صدر آصف زرداری کی جانب سے 65 ارب روپے کی ادائیگیاں محفوظ بنانے کیلئے ایک دو روز میں آرڈیننس جاری کرنے کی توقع ہے۔واضح رہے ایف بی آر کو ریونیو کی بڑی کمی کا سامنا ہے اور اس نے 27 دسمبر تک 5.08 ٹریلین روپے اکٹھے کئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے 31 دسمبر تک 6.009 ٹریلین روپے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے دعوی کیا یہ معقول معاہدہ ہے اور ہم سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔حکومت نجی شعبے کو براہ راست قرض نہیں دینا چاہتی، امید ہے بینک رضاکارانہ طور پر نجی قرضے دیں گے۔
تاہم حالات کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس سال جون میں خاموشی سے 15 فیصد ٹیکس معاف کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اسے اس وقت پریشانی ہوئی جب ایکسپریس ٹریبیون میں خبر شائع ہوئی۔ اس کے بعد بینکوں نے 15 فیصد ٹیکس سے بچنے کیلئے جارحانہ نجی قرضے دینے کی کوشش کی۔ حکومت نے یہ قانونی تبدیلیاں ٹیکس قوانین ترمیمی بل کے ذریعے نہیں کیں جو اس وقت قومی اسمبلی میں زیر بحث ہے۔
حکومت کمرشل بینکوں کو رعایت دینے کیلئے بجلی کی رفتار سے آگے بڑھی اور پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے ساتھ انکم ٹیکس کی شرح کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مفاہمت طے پا گئی۔وزیراعظم شہباز شریف نے رواں ماہ کے اوائل میں بینکوں پر 15 فیصد اضافی انکم ٹیکس کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کمیٹی کی سربراہی کی، جس نے سٹینڈرڈ انکم ٹیکس کی شرح 44 فیصد تک بڑھانے کے عوض 15 فیصد ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق بینکوں کو اب بھی غیرمعمولی منافع ملے گا کیونکہ مکمل وصولی کا تخمینہ 45 فیصد سے زیادہ کی شرح سے لگایا گیا تھا۔ حکومت نے شرحوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے انکم ٹیکس آرڈیننس کے ساتویں شیڈول کے پہلے شیڈول کے حصہ ایک اور رول 6سی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس نے 2022 ء کیلئے 15فیصد اضافی انکم ٹیکس کی چھوٹ کو قانونی ڈھال بھی فراہم کی ہے، جو حکومت نے پہلے نوٹیفکیشن کے ذریعے کیا تھا۔قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے قاعدہ 6 سی میں ترمیم کی گئی ہے۔
حکومت نے بینکوں کے دباؤ پر اس سے قبل 2023 ء کیلئے اضافی ٹیکس معطل کر دیا تھا تاہم یہ جنوری 2024 ء میں دوبارہ لاگو ہو گیا۔ "بشرطیکہ ٹیکس سال 2025 سے اور اس کے بعد کسی بینکنگ کمپنی کے منافع اور حاصلات پر پہلے شیڈول کے حصہ 1 کے ڈویژن II کے تحت ٹیکس کی شرح سے مشروط کیا جائے گا اور اس ذیلی اصول میں شامل کوئی بھی چیز کسی کے ٹیکس کی ذمہ داری کے حصہ یا پوری کی گنتی پر لاگو نہیں ہوگی۔
آرڈیننس کے مسودے کے مطابق بینکنگ کمپنی۔ایک اور شق کے مطابق سالانہ آڈٹ شدہ کھاتوں میں شک دور کرنے کیلئے واضح کیا جاتا ہے مجموعی ایڈوانسز اور ڈپازٹ کی اصطلاح جو اس ذیلی اصول میں دی گئی ہے، مجموعی ایڈوانسز ٹو ڈپازٹ ریشو کو کمپیوٹنگ کرنے کے مقصد سے، مجموعی ایڈوانسز اور ڈپازٹ کی رقم ہوگی جو اکاؤنٹنگ مدت کے اختتام پر ہوگی اور ظاہر کی جائے گی۔
اضافی انکم ٹیکس 2022 ء میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ بینکوں کو حکومت کو محفوظ قرضے دینے کی بجائے صنعتوں کو قرض دینے کی ترغیب دی جائے۔ بینکوں نے 31 دسمبر کی ٹیکس ادائیگی کی آخری تاریخ سے پہلے حکومت کو اپنے قرضے دوبارہ ایڈجسٹ کرکے محصول سے اکثر گریز کیا۔
بینکوں کیلئے عام انکم ٹیکس کی شرح 39% ہے۔تاہم، اگربینک کا مجموعی ADR 40% تک تھا، تو حکومت نے سرکاری قرض میں سرمایہ کاری پر 55% انکم ٹیکس لگایا۔ 40-50% کے ADR کے لیے، ٹیکس کی شرح 49% تھی اور اگر ADR 50% سے زیادہ ہو، تو نارمل 39% شرح لاگو کی جانی تھی۔
ٹولا ایسوسی ایٹ کی طرف سے بینکوں کی بیلنس شیٹ پر کام کرنے سے ظاہر ہوا 27 اداروں میں سے، کم از کم 13 ادارے 15 فیصد اضافی انکم ٹیکس ادا کرنے کے ذمہ دار تھے اگر انہوں نے 31 دسمبر تک اپنا ایڈوانس ایڈجسٹ نہیں کیا۔
ان کا ADR 21.9% سے 39.7% تک تھا جس نے انہیں 15% اضافی انکم ٹیکس ادا کرنے کا ذمہ دار بنا دیا۔ ٹولا ایسوسی ایٹس نے ٹیکس سال 2024 ء کیلئے بینکوں کے شائع شدہ آڈٹ شدہ مالیاتی بیانات کی بنیاد پر اضافی ٹیکس کی ذمہ داری کا تعین کیا ہے اور 2025ء کیلئے ان کے ٹیکس واجبات کا تخمینہ لگایا ہے۔