ملکی مسائل اور اختیارات کی کشمکش ہمارے معاشرے کا ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ ہے جو روز بروز پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ہر محکمہ، ادارہ اور طبقہ یہی شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ ان کے پاس مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اختیارات موجود نہیں۔
اس صورت حال نے نہ صرف گورننس کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے نتیجے میں مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں اور ملک ایک دائروی چکر میں پھنسا ہوا دکھائی دیتا ہے جہاں ہر فرد اور ادارہ اپنی ذمے داری سے فرارکا راستہ تلاش کر رہا ہے۔
اختیارات کی غیر واضح تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد انتظامی نے نظام حکومت کو انتہائی کمزورکردیا ہے۔ آئین اور قوانین میں اگرچہ اختیارات کی وضاحت موجود ہے، مگر عمل درآمد کا فقدان اور بیورو کریٹک نظام کی پیچیدگیاں اس تقسیم کو غیر مؤثر بنا دیتی ہیں۔
ہر محکمہ اپنے اختیارات کی حدود سے مطمئن نہیں اور شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ انھیں کام کرنے کی آزادی نہیں دی جا رہی۔ ان شکایات کا اثر عوام پر یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں کہ ان کے مسائل کے ذمے دار کون ہیں اور انھیں کس سے توقع رکھنی چاہیے۔
ایک جانب سیاسی قیادت اختیارات کی کمی کا رونا روتی ہے، تو دوسری جانب بیوروکریسی کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو۔ سیاستدان شکایت کرتے ہیں کہ بیوروکریسی ان کے احکامات پر عمل نہیں کرتی، جب کہ بیوروکریٹس کا موقف ہوتا ہے کہ ان کے اختیارات میں سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ اس رسہ کشی کے نتیجے میں نہ تو حکومتی پالیسیوں پر عمل ہو پاتا ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر اقدام کیا جاتا ہے۔
اختیارات کے اس مبہم کھیل نے عوام کو بھی گمراہ کردیا ہے۔ عام آدمی کو یہ تک معلوم نہیں کہ اس کے مسائل کے حل کے لیے کس کے پاس جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شہری اپنے علاقے میں صفائی کے ناقص انتظامات سے پریشان ہے، تو وہ میونسپل کمیٹی کے پاس جاتا ہے، لیکن وہاں اسے یہ جواب ملتا ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے یا حکومت نے فنڈز جاری نہیں کیے۔ جب وہ حکومت سے رجوع کرتا ہے، تو وہاں سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ معاملہ بلدیاتی اداروں کا ہے۔
اس قسم کی صورتحال عوامی اضطراب کو بڑھا دیتی ہے اور نظام پر اعتماد کو مزید کمزورکردیتی ہے۔ اختیارات کی اس کشمکش کا ایک اہم پہلو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بھی نظر آتا ہے۔ وفاق اور صوبے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی سیاسی برتری کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں۔
کسی بھی قومی مسئلے پرکوئی فیصلہ لینے سے پہلے طویل مباحثے اور اختلافات کی نذرکردیا جاتا ہے، اور جب فیصلہ ہوتا ہے تو اس پر عمل درآمد میں غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگڑتے ہیں۔
عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی کشمکش بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدلیہ بعض اوقات انتظامی معاملات میں مداخلت کرتی نظر آتی ہے، جب کہ انتظامیہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس باہمی چپقلش نے نہ صرف گورننس کو متاثرکیا ہے بلکہ عدالتی نظام پر بھی عوام کا اعتماد کم کیا ہے۔ اختیارات کے مسئلے کا ایک اور پہلو ادارہ جاتی کمزوری اور عدم شفافیت ہے۔
مختلف ادارے اپنی حدود اور ذمے داریوں کو واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان اداروں میں نہ صرف اختیارات کی غیر متوازن تقسیم ہے بلکہ بدعنوانی اور اقربا پروری بھی عام ہے۔ کسی بھی ادارے کے اندرکارکردگی کا معیار اختیارات کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست استعمال پر منحصر ہوتا ہے، لیکن جب یہ اختیارات ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیے جائیں، تو ادارے اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ جاتے ہیں۔
ان مسائل کی ایک بڑی وجہ سیاسی قیادت کا ناپختہ پن اور ذاتی مفادات کی سیاست ہے۔ سب سے پہلے آئین اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ ہر محکمہ اور ادارہ اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہو اور اپنے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کرے۔
اداروں کے درمیان اختیارات کی حدود واضح کرنا بھی ضروری ہے تاکہ کوئی محکمہ اپنی ناکامیوں کا الزام کسی اور پر نہ ڈال سکے۔شفافیت اور احتساب کا نظام مضبوط کرنا بھی اختیارات کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اگر ہر ادارہ اور محکمہ اپنی کارکردگی کے لیے جواب دہ ہو، تو اختیارات کے غیر ضروری استعمال اور بدعنوانی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، عوام کو بھی آگاہی دینا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے درست فورم تک رسائی حاصل کر سکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر تعاون بھی اس مسئلے کا حل ہے۔ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو بہتر طریقے سے واضح کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی بھی فریق دوسرے کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت نہ کرے۔
الغرض اختیارات کی کشمکش ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لیکن یہ ناقابلِ حل نہیں۔ درست حکمت عملی، شفافیت اور عوامی شرکت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ جب ہر فرد، محکمہ اور ادارہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھ کر عمل کرے گا تو ملکی مسائل کا حل ممکن ہوگا اورگورننس کا نظام بہتر ہوگا۔ صرف ارادے اور عمل کی ضرورت ہے تاکہ یہ رونا دھونا ختم ہو اور عوام کو ایک بہتر مستقبل کی امید دی جا سکے۔