پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اہم امور پر گفتگو کی ہے، آئی ایس پی آر میں کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے، رواں سال 59 ہزار 775 کامیاب آپریشنز کیے گئے، سیکیورٹی فورسز نے 2024 میں مختلف آپریشنز کے دوران 925 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جب کہ سیکڑوں گرفتار ہوئے۔
آپریشنز میں 27 افغان دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ دہشت گردی کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا گیا، بلوچستان میں دہشت گردوں کے انتہائی مطلوب سرغنہ کو بھی جہنم واصل کیا گیا۔ 2024 میں 383 بہادر آفیسرز اور جوانان نے جام شہادت نوش کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کی یہ جنگ آخری دہشت گرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
فتنہ الخوارج افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان میں موجود دہشت گردوں تک جاتے ہیں۔ پاک فوج نے واضح کیا کہ افغانستان خارجیوں اور دہشت گردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے۔
ادھر وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ اور بھائی ہے جس کے ساتھ تعلقا ت بہتر بنانا ، معاشی تعاون، تجارت کا فروغ اور تعاون کو وسعت دیناہماری خواہش ہے لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ٹی ٹی پی آج بھی وہاں سے سرگرم ہے اور ہمارے بے گناہ لوگوں کو شہید کررہی ہے، یہ دوعملی نہیں چل سکتی، افغان حکومت کو ایک سے زائد مرتبہ اچھے تعلقات قائم کرنے کا پیغام دیا ہے، ٹی ٹی پی کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا ہو گا۔
انھیں کسی صورت پاکستان کے بے گناہ عوام کو شہید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، یہ ہمارے لیے سرخ لکیر ہے، اگر ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے بدستورسرگرم رہے گی تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ انھوں نے افغان حکومت پر زوردیا وہ اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی تیار کرے، ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اگر ایک طرف ہمیں تعلقات بڑھانے کا پیغام ملے اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کو کھلی چھٹی ہوتو یہ دو عملی قابل قبول نہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر ہو یا ماضی میں دہشت گردی کی وارداتیں، اس کے تانے بانے شمال مغربی سرحد کے پار جا کر ملتے ہیں۔ افغانستان کے حکمرانوں نے اول روز سے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت ہو، داؤد حکومت ہو، کمیونسٹوں کی حکومت ہو، نام نہاد جمہوریت پسندوں جن میں کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کی حکومت ہو یا پھر نام نہاد مجاہدین کی حکومت ہو اور اب طالبان کی ڈیفکٹو حکومت ہو، پاکستان سے دشمنی کے حوالے سے سب کا رویہ اور پالیسی ایک جیسی چلی آ رہی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
جو زبان اشرف غنی کی حکومت بولتی تھی، ویسی ہی زبان اب طالبان بول رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی وجہ سے پاکستان نے اپنی افغان پالیسی میں لچک رکھی ہے، اس لچک کی وجہ سے پاکستان بے شمار مسائل اور بحرانوں کا شکار ہوا ہے۔
آج طالبان حکومت کے زعما جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ انھوں نے سوویت یونین کو شکست دی اور پھر امریکا کو شکست دی تو شاید وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں یا روایتی چال بازی کے انداز میں نظرانداز کرتے ہیں کہ اگر اس ساری جدوجہد اور لڑائی میں پاکستان شامل نہ ہوتا تو افغانستان سے سوویت فوجیں واپس جاتیں اور نہ وہاں کمیونسٹوں کا اقتدار ختم ہوتا۔
امریکا کی باری تو بعد میں آنی تھی۔ آج بھی طالبان کا اقتدار پاکستان کی مرہون منت ہے۔ دوحہ مزاکرات کی راہ بھی پاکستان نے ہموار کی ہے۔ طالبان امریکا کی جس شکست کی بات کر رہے ہیں، اس امریکا کے ساتھ طالبان کی قیادت نے امریکا میں باقاعدہ مذاکرات کیے اور امریکینوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کر کے اقتدار میں آئے ہیں۔ آج بھی اس معاہدے پر قائم رہنے کے پابند ہیں۔
اس معاہدے میں واضح طور پر طالبان نے عہدنامہ لکھا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کسی دوسرے ملک کی سرزمین کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود اگر طالبان حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں پناہ دییہوئے ہے، انھیں تربیت کے پورے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں تو یہ اقوام عالم کے ساتھ کیے گئے عہد کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان میں جو مخصوص مائنڈسیٹ شمال مغرب میں اپنے لیے سیف ہیون ڈھونڈتا ہے، اس مائنڈسیٹ کو پاکستان میں مارجنلائز کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ افغانستان کو ایک آزاد، خودمختار اور عوام کی نمایندہ حکومت کی ضرورت ہے نہ کہ جبر کے ذریعے قابض حکمرانوں کی۔
افغانستان مختلف النسل قبائل اور زبانوں کا حامل ملک ہے، اس ملک میں دس بڑی قومیتیں آباد ہیں۔ یہ کسی ایک قومیت کا ملک نہیں ہے۔ ماضی میں سوویت یونین، برطانوی سامراج کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں موجودہ افغانستان کی سرحدوں کا تعین ہوا ہے۔ اس تعین میں سوویت یونین، ایران اور برطانوی ہند کے نمایندوں نے کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے افغانستان کو اپنی حالیہ تاریخ کی مبادیات کی ازسرنو اسٹڈی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو شمال مغربی سرحد پر فول پروف انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مالی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اربوں روپے کا غیر قانونی سپیکٹرم موجود ہے، بھتہ خوری،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں، اسمگلنگ اورغیر قانونی اسلحہ کا ایک غیرقانونی سپیکٹرم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو غیر قانونی سپیکٹرم کے تحفظ میں جگہ جگہ سیاسی پشت پناہی بھی نظر آئے گی، غیر قانونی سپیکٹرم کو توڑنا ہوگا سزائیں سنانا ہوں گی، آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے، پاک فوج کے سربراہ کہہ چکے ایک پاکستانی کی جان افغانستان پر مقدم ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سانحہ 9 مئی کے حوالے سے بھی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی افواج پاکستان نہیں عوام کا مقدمہ ہے، قانون کے مطابق 9 مئی کے زیر حراست مجرموں کو سزائیں دینے کا عمل مکمل ہو چکا ، لوگوں کو سمجھ آرہی ہے کہ جھوٹے بیانیے کے پیچھے کون ہے، پاکستان میں آرمی کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے موجود ہیں، کوئی جتھہ یا مسلح گروہ اپنی مرضی یا سوچ معاشرے پر مسلط نہیں کرسکتا، اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں، مستقبل میں بھی ایسی ہی سزائیں ملیں گی، انصاف کا سلسلہ تب تک چلے گا جب تک منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔
انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات کا ہونا خوش آیند ہے مگر یہ سیاسی جماعتوں نے آپس میں کرنے ہیں، ہمارے لیے تمام سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن سیاست کو ریاست پر مقدم رکھنے والوں کو جواب دینا ہو گا۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو کراس کرچکے ہیں، مغربی ممالک میں سیاسی انتشاریوں کو کوئی جگہ نہیں دیتا، پاکستان اور قوم بھی 9 مئی جیسے سانحے یا ایسی سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی۔انھوں نے کہا کہ 2020میں امریکا میں کیپیٹل ہل پر حملہ ہوا تیزی سے لوگوں کو سزائیں دی گئیں، لندن رائٹس 2011میں 1200سے زیادہ لوگوں کو سزائیں دی گئیں، 2023میں فرانس کے فسادات میں 700سے زائد لوگوں کو سزائیں دی گئیں۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر آزاد اور خودمختار ملک کے حکمرانوں، فوج، اداروں، سیاست دانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی اولین ذمے داری اور فرض ملک کی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ آج دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں کسی ایک قبیلے یا قوم کی حکومت ہو۔
ہر ملک کثیرالجہتی نسلی گروہوں کا خوبصورت گلدستہ ہے۔ امریکا ایک وفاق ہے اور وہاں سیکڑوں نسلوں اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ امریکا ان سب کا ملک ہے۔ اسی طرح انڈیا میں بھی سیکڑوں نسلوں اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ ایران میں بھی بیسیوں نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ سوویت یونین کی صورت حال بھی ایسی ہے جب کہ چین میں بھی ہان، منگول، یوگور اور سینٹرل ایشیائی نسلی گروہ آباد ہیں اور یہ سب مل کر چین کہلاتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان بھی ایک وفاق ہے اور یہاں پر مختلف نسلیں، ذاتیں، برادریاں، زبانیں اور بولیاں موجود ہیں۔ یہ سب پاکستانی ہیں۔ یہاں کسی ایک کی بالادستی یا اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔ ملک کی ملازم پیشہ کلاس ہو، سیاسی قیادت ہو، اہل علم ہوں، کاروباری برادری ہو، زمیندار، کسان اور زرعی مزدور ہوں، صنعت کار، تاجر اور علمائے مشائخ ہوں، یہ سب ریاست پاکستان کے اسٹیک ہولڈر اور شہری ہیں۔ ان میں ہر قوم، برادری، مذہب ومسلک کے لوگ شامل ہیں۔ ان سب سے مل کر پاکستان بنتا ہے اس لیے سب کو اس ملک کی تعمیر وترقی کو اولین فرض سمجھنا چاہیے۔