اس مضمون میں ہم غزہ کی بات نہیں کریں گے جہاں تمام تعلیم گاہیں ملبے کا ڈھیر ہیں۔سوا چھ لاکھ طلبا اور ساڑھے بائیس ہزار اساتذہ کس حال میں ہیں کچھ پتہ نہیں۔ بس اتنا معلوم ہے کہ اب تک چھیالیس ہزار سے زائد جاں بحق ہونے والوں میں بارہ ہزار طلبا اور پانچ سو اساتذہ بھی شامل ہیں۔
لگ بھگ سوا لاکھ زخمیوں میں کم ازکم سولہ ہزار طلبا اور ڈھائی ہزار اساتذہ ہیں۔بیس لاکھ دربدروں میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ان میں سے پندرہ لاکھ نے کھنڈرات ، خیموں ، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کے ملبے اور اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا کے تباہ حال اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔باقی دو تپتی گرمیوں کے بعد دوسرا موسمِ سرما کھلے آسمان تلے گذار رہے ہیں۔
سات اکتوبر دو ہزار سات کو غزہ کی چھ یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیم کے اٹھارہ اداروں میں ستاسی ہزار طلبا و طالبات پڑھ رہے تھے۔ان میں سب سے معروف انیس سو اٹھہتر سے قائم اسلامک یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ کی عرب دنیا میں شہرت تھی۔اس ڈپارٹمنٹ میں ڈیڑھ ہزار طلبا و طالبات تھے۔جب کہ یونیورسٹی میں سترہ ہزار طلبا کا انرولمنٹ تھا۔ان میں تریسٹھ فیصد طالبات تھیں۔مگر اسرائیلی فوج نے سب تباہ کر دیا۔چنانچہ فی الحال ہم غربِ اردن کے تعلیمی نقشے کی بات کریں گے۔
فلسطینی والدین کے نزدیک چھت اور غذا کے بعد پہلی ترجیح تعلیم ہے۔فلسطینی اتھارٹی کا بیس فیصد بجٹ تعلیم کے لیے مختص ہے ( پاکستان کا تعلیمی بجٹ دو فیصد کے لگ بھگ ہے )۔
اس وقت غربِ اردن میں فعال بارہ یونیورسٹیوں میں سے اکثریت نجی جامعات کی ہے۔پہلی جامعہ بیت الحم کیتھولک یونیورسٹی انیس سو تہتر میں ویٹیکن کے تعاون سے قائم ہوئی۔اس میں مسلمان طلبا کا تناسب اٹھہتر فیصد ہے۔
رام اللہ کے مضافاتی قصبے بیرزیت میں لبرل آرٹس اور سائنس کی پہلی سیکولر یونیورسٹی انیس سو پچھتر میں ایک صدی سے تعلیم کے لیے وقف معروف کرسچن ناصر فیملی نے قائم کی۔اس وقت بیرزیت تعلیمی رینکنگ کے اعتبار سے فلسطین کی اول اور عرب دنیا کی ٹاپ پچاس یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہے۔
بیرزیت یونیورسٹی میں پہلے سال چار سو طلبا کا داخلہ ہوا۔آج اس کی نو فیکلٹیز میں انڈر گریجویٹ سے پوسٹ گریجویٹ تک ایک سو بیس اکیڈمک پروگرامز میں چودہ ہزار طلبا داخل ہیں۔طالبات کا تناسب تریسٹھ فیصد ہے۔اب تک بیرزیت سے چون ہزار طلبا فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔
زیرِ تعلیم چھیالیس فیصد طلبا کو تعلیمی قرضے، اسکالرشپس یا معاشی حالت کے پیشِ نظر مالی امداد ملتی ہے۔لگ بھگ ڈھائی سو ایکڑ رقبے پر پھیلی اس یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں پونے تین لاکھ کتابیں ہیں۔
بیرزیت میں ایک غیر رسمی پرزنرز کمیٹی بھی قائم ہے جو اسرائیلی فوج یا پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے طلبا و اساتذہ کی قانونی مدد کا انتظام کرتی ہے۔
جب امریکی سرپرستی میں نوے کی دہائی میں اسرائیل پی ایل او امن مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے تو فلسطینی وفود میں بیرزیت یونیورسٹی کے تیرہ فیکلٹی ممبر بھی تھے۔ان میں سے ایک ڈاکٹر حنان اشراوی آج بھی یہاں انگریزی ادب پڑھاتی ہیں۔
بیرزیت کے طلبا اور فیکلٹی کا ستر کے عشرے سے اب تک اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں ہراول کردار ہے۔
نومبر انیس سو چوہتر کو جب بیرزیت کالج ابھی یونیورسٹی کے درجے پر نہیں پہنچا تھا۔اس کی پرنسپل حنا ناصر اور چار دیگر فیکلٹی ممبرز کو مغربی کنارے کی فوجی انتظامیہ نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر لبنان ڈیپورٹ کر دیا۔حنا ناصر نے بیروت کے بجائے عمان میں اپنا دفتر بنا لیا تاکہ وہ اپنے کالج سے رابطے میں رہیں۔بقول حنا ناصر ’’ مجھے بس یہ فکر تھی کہ یونیورسٹی کو چارٹر اور مالی مدد ملے گی یا نہیں ‘‘۔
جون انیس سو اسی میں فوجی فرمان نمبر آٹھ سو چون کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے داخلے اور تقرریوں کے معاملات اسرائیلی فوجی انتظامیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم بین الاقوامی دباؤ کے سبب یہ فیصلہ واپس لینا پڑا البتہ فلسطینی یونیورسٹیوں میں تدریس کے خواہش مند غیر ملکی اساتذہ کو اسرائیل نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔
انیس سو اکیاسی سے اپریل بیاسی تک یونیورسٹی سات ماہ بند رہی۔ کیونکہ یہاں کے طلبا اور فیکلٹی نے اسرائیلی قبضے کے خلاف ہڑتالوں کی حمائیت کی تھی۔ مگر یونیورسٹی دوبارہ کھلنے کے بعد بھی طلباہاسٹلز پر اچانک چھاپوں ، گرفتاریوں اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔یونیورسٹی آنے والے تمام راستوں پر چیک پوسٹیں بنا دی گئیں۔
جولائی انیس سو بیاسی میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے خلاف طلبا ہڑتالوں کی وجہ سے یونیورسٹی پھر دو ماہ کے لیے بند کر دی گئی۔ انیس سو تراسی میں مغربی کنارے کی یونیورسٹیوں سے تینتالیس اساتذہ کو نکال دیا گیا کیونکہ انھوں نے پی ایل او کی مذمت کی سرکاری دستاویز پر دستخط سے انکار کر دیا تھا۔
نومبر انیس سو چوراسی میں بیرزیت پھر ایک ماہ کے لیے بند کر دی گئی۔اس پابندی کے خلاف طلبا احتجاج پر ایک فوجی نشانچی کی فائرنگ سے یونیورسٹی کا پہلا طالبِ علم شراف طبی شہید ہو گیا۔وہ بچ سکتا تھا مگر ایمبولینس کو فوجی چیک پوسٹ پر پچیس منٹ روکے جانے کے سبب زیادہ خون بہنے سے راستے میں ہی دم توڑ گیا۔دیگر زخمی اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی راستہ نہیں دیا گیا۔
مارچ انیس سو پچاسی میں یونیورسٹی پھر دو ماہ کے لیے بند ہو گئی کیونکہ فوج کی جانب سے کیمپس میں کتب میلہ روکنے کے خلاف طلبا بپھر گئے۔ انیس سو ستاسی میں یونیورسٹی چار ماہ کے لیے بند ہوئی۔
پہلا انتفادہ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد جنوری انیس سو اٹھاسی میں یونیورسٹی کو اکیاون ماہ ( چار سال تین ماہ ) تک کھلنے نہیں دیا گیا۔مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پابندی کا توڑ یہ نکالا کہ کلاسیں قریبی شہر رام اللہ کے الحمرا پیلس سمیت نواحی قصبوں میں منتقل کر دیں۔
اس دوران قابض فوج نے الحمرا پیلس پر کئی بار یلغار کی۔ طلبا سے شناختی کارڈ چھین کر انھیں باہر نکال دیا جاتا۔ غزہ سے آنے والے طلبا کو جبراً واپس بھیج دیا گیا۔جب کہ طالبات بھی ہاسٹل پر چھاپے اور گرفتاریوں سے نہ بچ سکیں۔
پھر مختلف گھروں میں کلاسیں ہونے لگیں۔ طلبا و طالبات کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی گئی تاکہ وہ فوج اور پولیس کارروائی کا شکار ہونے والے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دے سکیں۔یہ تربیت بھی دی گئی کہ اگر اسرائیلی فوج پانی روک دے یا زہر ملا دے تو آبی صفائی کیسے کی جائے۔
یونیورسٹی کی لیبارٹریوں سے آلات منتقل کر کے گھروں کے باورچی خانوں کو عارضی لیب میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ سائنس کے طلبا مصروف رہیں۔ بیرزیت کے ایک طالبِ علم کے بقول ’’ باقی دنیا میں طلبا فخر سے اپنا شناختی کارڈ ہر ایک کو دکھاتے ہیں مگر ہم چیک پوسٹوں پر اسے نکالتے ہوئے ڈرتے ہیں ‘‘۔
گذشتہ دو برس سے فلسطینی طلبا کو فوج اور پولیس کے ساتھ ساتھ مسلح یہودی آبادکاروں کے روزمرہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔اس ماحول میں انھیں مسلسل خدشہ رہتا ہے کہ جانے کل ان کا کون سا ہم جماعت نظر آئے، نہ آئے۔مگر پھر وہ یہ خوف یہ سوچ کر جھٹک دیتے ہیں کہ ہر حالت میں حصولِ تعلیم بھی تو دشمن کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ایک موثر مزاحمتی ہتھیار ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)