پیرس کی کرسمس

نیویارک اور پیرس دونوں کرسمس کے دنوں میں مصروف ترین شہر بن جاتے ہیں


جاوید چوہدر ی December 31, 2024
www.facebook.com/javed.chaudhry

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے سے منائی جاتی ہیں‘ فرانس کا شہر ’’اسٹراس برگ‘‘ بھی ان میں شامل ہے‘ کرسمس ٹری کا تصور اسی شہر سے آیا ‘ ہم اسٹراس برگ جانا چاہتے تھے لیکن پیرس پہنچ کر معلوم ہواپورا شہر تین ماہ پہلے سے مکمل بُک ہو چکا ہے‘ شہر میں کوئی ہوٹل‘ کوئی فلیٹ اور کوئی ویلا کرائے پر دستیاب نہیں تھا‘ ٹرینیں بھی بُک ہو چکی تھیں‘ ان میں ایک بھی سیٹ دستیاب نہیں تھی‘ ہم مایوس ہو گئے لہٰذا ہم نے اسٹراس برگ کو اگلے سال پر ملتوی کر دیا اور پیرس کو انجوائے کرنے لگے‘ یورپ اور امریکا کرسمس کے دنوں میں بہت مہنگے ہو جاتے ہیں۔

 اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ٹریفک ہے‘ پوری کرسچین دنیا کے لوگ ایک شہر سے دوسرے اور دوسرے ملک سے تیسرے میں سفر کرتے ہیں‘ اس کی وجہ 24 دسمبر کی رات کا ڈنر ہوتا ہے‘ عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ  ؑ نے 24 دسمبر کی رات اپنی والدہ‘ اپنے سوتیلے والد جوزف( عربی نام یوسف‘ عیسائی روایت کے مطابق حضرت مریم  ؑ نے جوزف سے باقاعدہ شادی کی تھی اور انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا تھا) اور ساتھیوں کے ساتھ اکٹھا ڈنر کیا تھا چناں چہ پوری عیسائی دنیا 24 دسمبر کا ڈنر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ کرتی ہے۔

 یہ اس گیٹ ٹو گیدر کے لیے دنیا بھر سے سفر کر کے اپنے آبائی شہر اور گھر آتے ہیں چناں چہ عیسائی دنیا میں دسمبر بالخصوص آخری دس دنوں میں فلائیٹس اور ٹرین کے ٹکٹ مہنگے ہو جاتے ہیں‘ سیٹیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں‘ دوسرا دسمبر کے دوسرے ہفتے بچوں کو اسکول اور کالج اور والدین کو دفتروں سے چھٹیاں ہو جاتی ہیں لہٰذا یہ اپنے آبائی علاقے میں جانے سے قبل کسی ایسے شہر جاتے ہیں جہاں کرسمس کا میلہ لگا ہو‘ اس وجہ سے بھی رش ہو جاتا ہے۔

نیویارک اور پیرس دونوں کرسمس کے دنوں میں مصروف ترین شہر بن جاتے ہیں‘ ہم نیویارک پہنچے تو وہاں بہت رش تھا‘ گلیوں‘ بازاروں‘ ریستورانوں اور کافی شاپس میں لوگ ہی لوگ تھے‘ ہم نے وہاں سے پیرس کی فلائیٹ لی تو سوا تین سو مسافروں کا جہاز دروازے تک پیک تھا‘ اس میں واقعی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی‘ پیرس میں بھی رش تھا‘ شانزے لیزے کو ہر سال کی طرح کرسمس لائیٹس کے ساتھ سجایا گیا تھا‘ شاپنگ سینٹرز میں داخلے کے لیے لائنیں لگی تھیں جب کہ ریستورانوں اور کافی شاپس کے لیے باقاعدہ بکنگ کرانا پڑتی تھی‘ پیرس میں سردی بھی تھی اور بارش بھی لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر رش تھا‘ شہر میں دو جگہوں پر کرسمس مارکیٹیں لگی تھیں۔

 کنکورڈ کے سائے میں اور پہاڑی چرچ سیکرے کور کی پرانی اور پتھریلی گلیوں میں۔ چرچ سیکرے کور ڈیڑھ سو سال پرانی عبادت گاہ ہے‘ یہ پہاڑی پر ایستادہ ہے اور اس کی دونوں سائیڈز سے پورا پیرس شہر دکھائی دیتا ہے‘ دن کے وقت یہاں بہت رش ہوتا ہے‘ گلیوں میں چھوٹے چھوٹے کیفے اور ریستوران ہیں جب کہ مرکزی چوک میں مصور ایزل لگا کر سیاحوں کی تصویریں اور سکیچ بناتے رہتے ہیں‘ چرچ کے ساتھ ساتھ کرسمس مارکیٹ لگتی ہے‘ لوگ وہاں جاتے ہیں‘ کھاتے پیتے ہیں اورشاپنگ کرتے ہیں‘ وہاں چھوٹی ٹرین بھی چلتی ہے جس کے اسٹاف نے کرسمس کا سرخ اور سفید لباس پہنا ہوتا ہے۔

بچے اس ٹرین کو بہت انجوائے کرتے ہیں‘ فرانس میں لوگ کرسمس کے موقع پر گرم وائن پیتے ہیں لہٰذا ہر دوسری دکان اور ٹھیلے پر سوپ کی طرح وائین ابل رہی ہوتی ہے اور یہ باقاعدہ سوپ کے پیالوں یا کافی کے کاغذی مگوں میں ڈال کر دی جاتی ہے اور لوگ ہاتھ رگڑ کر اسے سوپ کی طرح پیتے ہیں‘ چرچ سارا دن کھلا رہتا ہے اور لوگ زیارت کے لیے اس میں داخل ہوتے رہتے ہیں‘ گلیوں میں کیفے اور ریستوران ہیں‘ ان میں رات گئے تک رش رہتا ہے‘ ہم بڑی دیر تک وہاں گھومتے رہے‘ ہم نے واپسی کے لیے پیدل کا آپشن پسند کیا اور ڈھلوانی فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے پیگال کے علاقے میں پہنچ گئے‘ یہ علاقہ کبھی بدنام ہوتا تھا لیکن اب یہ صاف ستھرا ہو چکا ہے ’’ملائین روچ‘‘ کا شو اسی علاقے میں ہوتا ہے۔

 یہ اسٹیج ڈراما 135 سال سے مسلسل چل رہا ہے‘ پیرس اس لحاظ سے بہت منفرد شہر ہے‘ اس میں فوکٹ اور کیفے ڈی فلورا جیسے کیفے ہیں‘ فوکٹ 129سال سے چل رہی ہے‘ یہ شانزے لیزے پر ہے اور اپنی کافی اور سویٹ ڈشز کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ اس کا کھانا بھی لاجواب ہے‘ کیفے ڈی فلورا مشاہیر کا کیفے تھا‘ یہاں ژاں پال سارتر اور ارنسٹ ہیمنگ وے جیسے لکھاری روزانہ بیٹھتے تھے‘ میں آج سے15 سال قبل پہلی مرتبہ وہاں گیا تھا‘ اس وقت کیفے میں سارتر کی کرسی اور ہیمنگ وے کا مجسمہ ہوتا تھا‘ کاؤنٹر پر وہ فون بھی پڑا تھا جس سے ہیمنگ وے یورپ اور جنگ کی خبریں امریکا میں لکھواتا تھا لیکن اب یہ ختم ہو چکے ہیں‘ ہیمنگ وے کا مجسمہ اور سارتر کی کرسی دونوں اٹھادی گئی ہیں اورا سٹاف بھی ان کے وجود سے واقف نہیں ہے‘ یہ کیفے1885میں بنا تھا اور یہ بھی 139برسوں سے مسلسل چل رہا ہے۔

میں پانچ سال کے وقفے سے وہاں گیا اور خاصی مایوسی ہوئی‘ کیفے سے وابستہ سارا رومانس غارت ہو گیا جب کہ فوکٹ میں جینز اور جاگرز کی وجہ سے اینٹری نہ ہو سکی‘ پیرس کے زیادہ تر پرانے ریستورانوں اور کیفیز میں آج بھی داخلے کے لیے مناسب لباس ضروری ہوتا ہے‘ آپ جینز اور جاگرز کے ساتھ وہاں داخل نہیں ہو سکتے‘ شانزے لیزے پر جیٹ سیپٹ کے نام سے ایک پرانا ایرانی ریستوران بھی ہوتا تھا‘ میں پندرہ برسوں سے وہاں سے کھانا کھا رہا ہوں‘ اس کا چلو کباب اور چلو گوشت لاجواب ہوتا تھا اور ایران کی یادیں تازہ کر دیتا تھا‘ یہ ریستوران ایک ایرانی بزنس مین فراز واحدی نے انقلاب ایران کے بعد پیرس میں شروع کیا تھا‘ وہ انقلاب میں جان بچا کر فرانس پہنچا‘ پیدائشی باورچی تھا۔

 اس نے پیرس میں ریستوران شروع کیا اور دنوں میں کام یاب ہو گیا‘ یہ شانزے لیزے پر چار ریستوران چلا رہا تھا اور روز لاکھ سوا لاکھ یوروز کی سیل کرتا تھا‘ آج سے چند ماہ قبل اس کے ریستوران پر قتل ہو گیا‘ ایک گاہک نے دوسرے گاہک کو گولی مار دی‘ پولیس نے تفتیش سے قبل ریستوران بند کرا دیا اور یہاں سے اس کی بدقسمتی شروع ہو گئی‘ اس کے ٹیکس کے کھاتے بھی کھل گئے اور اس نے دو اڑھائی ملین یوروز اپنی بیٹی کے گھر رکھے ہوئے تھے‘ اس کی بیٹی کا کسی سیاہ فام کے ساتھ چکر چلا اور وہ یہ رقم اور بیٹی دونوں کو لے کر غائب ہو گیا اور یوں یہ بے چارہ دیکھتے ہی دیکھتے کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا‘ ریستوران مستقل طور پر بند ہو گیا‘ میں وہاں گیا لیکن اسے بند دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔

پیرس میں کنکورڈ نام کا ایک لمبا ستون بھی ہے‘یہ گرینائیٹ کا 23میٹر اونچا ستون ہے جس پر قدیم فرعونی زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے‘ نپولین بونا پارٹ نے 1798 میں مصر فتح کیا تھا‘ یہ لکسر شہر سے آتے ہوئے دوستون پیرس لے آیا تھا‘ یہ کنکورڈ کہلاتے ہیں‘ ایک کنکورڈ شانزے لیزے کے آخر میں لوور میوزیم کے پارک کے سامنے ایستادہ ہے جب کہ دوسرا دریائے سین کے کنارے نصب تھا‘ دوسرا ستون امریکا لے گیا اور یہ آج کل واشنگٹن میں کیپٹل ہل پر لگا ہے۔

 آپ یقینا جانتے ہوں گے امریکا کا ’’مجسمہ آزادی‘‘ بھی پیرس سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ بھی دریائے سین کے کنارے ایفل ٹاور کے قریب نصب تھا اور امریکا نے 1885میں فرانس کی فوجی مدد کی تھی اور اس خدمت کے عوض فرانس سے مجسمہ آزادی اور کنکورڈ مانگ لیے‘ یہ ایفل ٹاور بھی لے جانا چاہتا تھا لیکن پیرس کے لوگوں نے ہاتھ جوڑ کر اسے بچا لیا لیکن مجسمہ آزادی اور کنکورڈ جنگی حمایت کی نظر ہو گیا‘ مصر سے اڑھائی کنکورڈ باہر نکلے تھے‘ ایک اس وقت واشنگٹن میں ہے‘ دوسرا پیرس میں اور آدھا استنبول میں بلیو ماسک (نیلی مسجد) کے پیچھے لگا ہے۔

 یہ شاہ سلمان کے دور میں مصر سے استنبول لایا گیا تھا‘ اس زمانے میں اسے لانے کے لیے اتنا بڑا بحری جہاز نہیں بنا تھا لہٰذا اسے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا‘ آدھا مصر میں چھوڑ دیا گیا اور باقی حصہ استنبول لا کرسلطان احمد کے علاقے میں فٹ کر دیا گیا بعدازاں اس کے ساتھ نیلی مسجد بن گئی اور یوں یہ مسجد کے سامنے پناہ گزین ہو گیا۔

 آپ یہ جان کر حیران ہوں گے مصر کے شہر لکسر (القصر) کی ویلی آف کنگز میں ایسے 127 کنکورڈ نصب ہیں اور یہ فرعونوں کے دور کی سائنسی عظمت کی گواہی ہیں‘ پیرس کی کرسمس مارکیٹ کنکورڈ کے سائے میں لگی تھی‘ کنکورڈ پر فاصلے سے نیلی اور سفید روشنیاں ڈالی جا رہی تھیں اور یہ دور اندھیرے میں کرسمس کینڈل بن کر چمک رہا تھا‘ 23 دسمبر کی رات وہاں اندھیرا بھی تھا‘ ہلکی ہلکی بارش بھی اور سردی بھی‘ اس سردی‘ بارش اور اندھیرے میں کرسمس کے گانے بج رہے تھے‘ پوری فضا میں ایک تقدس ہلکورے لے رہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں