اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امن کا مخالف

اسرائیلی تنظیم موساد کی کارروائیوں کے سبب مشرق وسطیٰ میں بہت سے سانحات رونما ہوچکے ہیں


ایڈیٹوریل January 01, 2025

اسرائیلی فوج کی غزہ میں اسپتالوں اور مسجد پر بمباری کے نتیجے میں مزید ستائیس فلسطینی شہید ہوگئے۔ دوسری جانب ایک برس کے دوران سولہ ہزار کے قریب بھارتی ورکر اسرائیل آئے ہیں جب کہ مزید ہزاروں بھارتی مزدوروں کو لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، سات اکتوبر2023 کے حملے سے قبل 80 ہزار کے قریب فلسطینی تعمیراتی پروجیکٹس میں کام کرتے تھے، جب کہ ہزاروں اسرائیلیوں نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف گزشتہ رات تل ابیب اور اسرائیل کے متعدد شہروں میں مظاہرے کیے۔

 مشرق وسطی میں جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے ، اسے دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کو سرے سے آزاد ریاست تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ اقوام متحدہ قراردادیں اور عالمی معاہدے گل سڑ کر ردی ہو چکے ہیں جب کہ اسرائیلی ریاست مسلسل فلسطین کی زمین ہڑپ کرتی جا رہی ہے۔

غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران بھی جب اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی گئی تو امریکا نے امن کی متعدد قراردادوں کو ویٹوکردیا اور اسرائیل کو کھلی جارحیت جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا اور اسے ہر طرح کی امداد بھی فراہم کی۔ بڑی طاقتیں خطے میں امن نہیں چاہتی ہیں وہ خود حالات کو خراب کرنا یا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ یہاں کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد پورے کر سکیں۔ مشرق وسطیٰ میں میں امریکا کا کردار ہمیشہ مشکوک اور تنازعات کو ہوا دینے والا رہا ہے جب کہ عرب ممالک بھی باہم تقسیم ہیں جب کہ ایران اور ترکی اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی اختیار کرتے ہیں۔

اسرائیلی جارحیت نے مشرق وسطیٰ کو خوفناک جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس وقت اسرائیل، فلسطین، لبنان، شام، یمن اور ایران سے براہ راست نبرد آزما ہے۔ اس جنگ کا بڑا سبب اسرائیلی جارحیت یا اس کی جارحانہ پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے ہم ایک ایسے شدید اور تصادم کے مرحلے کی طرف بڑھیں گے جس میں ہر کسی کو نشانہ بنانے اور تمام علاقوں کو میدان جنگ بنانے کی اجازت ہو، جہاں بین الاقوامی اور انسانی قانون کے بجائے جنگل کا قانون ہو اور ایسا انتشار غالب آجائے جس کی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ اور خطرناک قیمت ہو۔

شہریوں کو نشانہ بنانا یا شہری اموات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا واضح طور پر قابل قبول عمل بنتا جا رہا ہے، اگر ایسے ہی چلتا رہا تو تمام فریق اس کا سہارا لیں گے، جس سے مزید عام شہری نشانہ بنیں گے اور شہر میدان جنگ بن کر تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔

اسرائیلی تنظیم موساد کی کارروائیوں کے سبب مشرق وسطیٰ میں بہت سے سانحات رونما ہوچکے ہیں۔ فلسطینی گزشتہ پون صدی سے جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ ہر روز اپنے پیاروں کے لاشے دفناتے ہیں اور پھر اسی جذبہ کے ساتھ اسرائیلکے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔

ان گنت مظالم کے باوجود فلسطینیوں کے دل میں روشن ہونے والی آزادی اور حریت کی شمع کو آج تک بجھایا نہیں جا سکا۔ ان کے لیے ایک راستہ بند کیا جاتا ہے تو وہ دوسرا راستہ کھول لیتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین، لبنان، شام، اور ایران میں کامیاب جنگی کارروائیاں کررہا ہے لیکن اسے تاحال ایسا نقصان نہیں پہنچا جس سے اسرائیل کی حکومت یہ سمجھے کہ اگر وہ امن کے راستے پر نہ آئے تو اس کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ 

طاقتور اقوام کی دو رخی پالیسی کے سبب اسرائیل کو شہ مل رہی ہے، وہ اپنے مذموم منصوبوں یا عزائم کی تکمیل کے لیے ایک کے بعد ایک ملک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا مقصد اسرائیلی یہودی ریاست کو استحکام اور دوام بخشنا ہے اور خطے کے ممالک کو اپنا زیر نگین بنانا ہے بلکہ ان کے وجود کو ہی سرے سے مٹانا ہے۔

 اب ایران کو بالکل اسی طرح گھیرنے کی کوشِش کی جارہی ہے جس طرح عراق کو ٹریپ کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے سامنے ایران کے سوا کوئی بڑا مزاحمت ملک نہیں رہا ہے، ترکی اور عرب ممالک کی پالیسی ایران سے مختلف ہے۔ اسرائیل کے پاس اپنی سرحدوں کے پار اور دوسرے ممالک کی خود مختاری کا احترام کیے بغیر سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے اور عام شہریوں خصوصاً فلسطینیوں اور عربوں کو قتل کرنے کا منفرد ریکارڈ ہے۔

ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ امریکا یا تو اسرائیل کو اس کی فوجی کارروائیوں کو آزادانہ اجازت دیتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل اس کی باتوں پر کان نہیں دھرتا۔ اس کے باوجود بھی امریکا اسرائیلی کارروائیوں میں ملوث ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ امریکا اسرائیل کو تباہ کن ہتھیار، گولہ بارود اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتا ہے۔

اگر یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہا تو اس سے علاقائی فریق بھی اپنی سنجیدہ سفارتی کوششوں کو محدود کردیں گے اور کچھ رسمی باتوں سے مطمئن ہوجائیں گے، جو کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں اس سے کشیدگی اور جنگ کی نوعیت کا مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہ اسرائیل کو امریکی سیاسی تحفظ کے تحت پورے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی مقام اور اہداف کے خلاف کارروائی کرنے اور نشانہ بنانے کی آزادی دیتا ہے اور یہ اس فوج کو بھی کسی جوابدہی سے محفوظ رکھتا ہے۔

 شام میں انقلاب کا فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے جس نے گولان ہائٹس کے بفر زون پر قبضہ کرلیا ہے۔ اب سب سے بڑی چوٹی اسرائیل کے قبضے میں ہے جہاں سے 40 کلومیٹر دور دمشق کو نہ صرف توپخانے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ پورے علاقے پر بھی نظر رکھی جاسکتی ہے۔ شام میں اس وقت انتشار اور انارکی ہے، پرانا سسٹم ٹوٹ چکا ہے، نیا موجود نہیں ہے، فوج مفلوج ہوچکی ہے، ان حالات سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل شام میں اہم اسٹرٹیجک مقامات پر اپنی پوزیشن مستحکم کررہا ہے اور اس میں خاصی حد تک کامیاب ہے۔

ایران اسرائیل کشیدگی میں اضافہ ہوچکا ہے، یورپین یونین ایران کے خلاف ہر شعبے میں سخت پابندیوں کی خواہاں ہے ۔ عالمی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے ایک بات پر متفق ہیں کہ امریکا نے ایران کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں امریکا اور نیٹو بحری فوج موجود ہے۔

ادھر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادیوں پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکاروں کا ظلم و جبر مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے جس کو اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہر قسم کی درپردہ اور پس پردہ معاونت اور گارنٹی حاصل ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی ہر کوشش کا جواب اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے منصوبہ بند دیوہیکل تباہی اور جبر کے ذریعے دیا ہے جس میں لامتناہی حملے اور ٹارگٹ قتل شامل ہیں ۔

اس سب کے ساتھ مسلح آبادکار مسلسل فلسطینی عوام کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی نوجوان، جن میں کئی کمسن شامل ہیں، گرفتار ہیں اورکسی عدالتی کارروائی کے بغیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ایک بھی مجرم آبادکار گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایک فرد کو کسی قسم کی سزا دی گئی ہے۔

2023کے آغاز سے اسرائیل ایک سیاسی بند گلی میں پھنسا ہوا ہے اور نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف بڑے احتجاجوں نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جب کہ اسرائیل کا حکمران طبقہ شدید اختلافات میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر قائم کیا گیا ہے۔یوں پوری قوم کی زمین پر قبضہ کر کے اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کردی گئی ہے، فلسطینیوں کی اپنی ہی زمین پر ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکی صدر جوبائیڈن نے نیتن یاہو پر نرم تنقید کی ہے، اس وجہ یہ تھی کہ وہ الیکشن جیتنا چاہتا تھا لیکن المیہ دیکھیں جو بائیڈن الیکشن ہی نہیں لڑ سکا ہے بلکہ ڈیموکریٹس کے اقتدار ہی ختم ہوگیا ہے ۔ امریکا کی پالیسیاں خطے میں امن کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔

اب یہ خطرہ سب کے لیے حقیقت بن چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اس وقت دھکتے ہوئے کوئلوں کی بھٹی سے کم نہیں جہاں ایک طرف غزہ میں فلسطینی بے سر و سامانی کے عالم میں لقمہ اجل بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لبنان اور شام کی صورتحال کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں، ایران اور اسرائیل تنازع اور امریکا کے مفادات نے خطے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کے پیش نظر یہ خطہ کئی برس سے جنگ کا شکار چلا آرہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں