خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جرگہ (پنچایت) معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ وہاں شرپسندوں اور دہشت گردوں نے سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کردی، اس واردات میں ڈپٹی کمشنر کرم شدید زخمی ہوگئے ہیں جب کہ چند افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس واردات میں کون لوگ ملوث ہیں، ان کا اندازہ لگانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے تاہم کے پی حکومت کی تحقیقات اور سرکاری موقف کے بعد ہی اس معاملے کی جہات کا پتہ چلے گا۔
بہرحال جمعے کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی صدارات میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا بھی اہم اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چیف سیکریٹریز، وزیراعظم آزاد کمشمیر، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ،پاک فوج کے سربراہ اور وفاقی وزراء نے شرکت کی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج کے مکمل خاتمہ کا وقت آچکا ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب مل کر اس فتنے کا خاتمہ کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاق، صوبوں اوردفاعی اداروں کو مل کر مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
پاکستان کو دہشت گردی کا جو سنگین چیلنج درپیش ہے ، اس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کو مشترکہ اور یکساں پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔ اس حوالے سے ایک متحرک اور فعال میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ یقیناً پاکستان کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ فورس کی کوئی کمی ہے ۔ اگر میکنزم فول پروف ہو، سسٹم فعال ہو اور ارادے پختہ ہوں تو دہشت گردی کا خاتمہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
یہ حقیقت اب واضع ہوگئی ہے کہ دہشت گرد گروہ اور ان کے سہولت کار مذاکرات کی زبان سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے آئین و قانون کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیے بغیر امن کا قیام ممکن نہین ہے ۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے نیشنل ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران مزیدکہا سوشل میڈیا پرپاکستان کے خلاف جو زہر اگلا جارہا ہے اسے روکنا ہوگا۔
انھوں نے دوٹوک الفاظ میں واضع کیا کہ پاکستان کے خلاف جو سازشیں کی جارہی ہیں، ان میں ملوث عناصرکا پوری طرح علم ہے،جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی وہ بہت بڑی بھول میں ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل محاذ پر پاکستان سے باہر بیٹھے دوست نما دشمن اور ایجنٹ جو زہر اگل رہے ہیں اورجس طرح وہ پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں، یہ بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، جھوٹ اورحقائق کومسخ کرکے پاکستان کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا اور ڈیجٹل میڈیا پلیٹ فارمز اور تھریڈز کے ذریعے اینٹی پاکستان عناصر اور گروہ عرصے سے زہریلا پراپگینڈا کررہے ہیں، ایسے عناصر میں بعض ایسے نام بھی شامل ہیںجو پاکستان کے باعث خوشحال ہوئے،انھوں نے اچھے عہدے حاصل کیے اور پھر اپنے خاندانوں کو اچھے مستقبل کے بیرون ملک بھیجا، ان لوگوں پر پاکستان کے قومی خزانے سے کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن اب وہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔ پاکستان کی صوبائی اکائیوں کی من پسند اور جھوٹ پر مبنی تاریخ بیان کررہے ہیں۔ ایسے عناصر کا احتسابی ضروری ہوچکا ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے نیشنل اپپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران اپنے خطاب میں مزید کہا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد پر جویلغار اورچڑھائی کی گئی اس کی آڑ میں جھوٹ کا طوفان اورحقائق کومسخ کرکے جس طرح کا پروپیگنڈہ کیا گیا، اس کی حالیہ وقتوں میں نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ا س جھوٹی مہم اور پراپیگنڈہ کو کائونٹر نہ کیا گیا تو تمام کاوشیں رائیگاں جائیں گی۔ انھوں نے واضع کیا کہ اس حوالے سے وفاق اقدامات کررہا ہے اورصوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہارکیا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کے دوران رینجر ز کے شہید جوانوں کے حوالے سے جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں۔ ہم مل کراس فتنے کا خاتمہ کریں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنا والا ایک مخصوص گروہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا ٹولز کا استعمال کررہا ہے ۔ یہ لوگ امریکا اور یورپی ممالک کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ان ممالک کے اہم افراد سے مل کر انھیں پاکستان کے بارے میں گمراہ کن معلومات فراہم کرکے انھیں پاکستان کی حکومت پر دباؤ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے اس اجلاس میں بتایا کہ صوبوں میں سی ٹی ڈی کومضبوط کیا جارہا ہے ، پنجاب اس حوالے سے سب سے آگے ہے۔پولیس کوجدید تربیت ، ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس اور میرٹ پر بھرتیاں کرنا ہوں گی۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ دشمن مذموم مقاصد کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے، یہ اقدامات انتہائی اہم ہیں۔
خیبرپختونخوا میں خارجی گھس بیٹھے ملک کے امن کے دشمن ہیں۔سرحد پار سے چند دن پہلے جو حملہ ہوا اس کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں بُنی جارہی ہیں ، ان میں ملوث خارجی ہاتھ کا پوری طرح سے علم ہے کہ کہاں کہاں سے ان کوسپورٹ مل رہی ہے۔
لوئر کرم کے علاقے بگن ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملہ کرنے والے مجرمان کو ہر صورت میں انجام تک پہنچانا صوبائی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کا فرض ہے۔
ابتدائی میڈیا اطلاعات میں سرکاری ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہونے سے پہلے لوئر کرم میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کی گئی ہے، صبح 10 بج کر 35 منٹ پر قافلہ روانہ ہونے سے قبل مذاکراتی ٹیم سڑک کھلوانے کے لیے مذاکرات کر رہی تھی، تقریباً 40 سے 50 مسلح شرپسندوں اور دہشت گردوں نے ڈپٹی کمشنر اور سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کی۔
سوال یہ ہے کہ اتنی تعداد میں مسلح دہشت گرد کھلے عام کیسے سرکاری گاڑیوں پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ امن کمیٹیوں کی گارنٹی کے باوجود فائرنگ کا ہونا تشویش ناک ہے۔اس کا واضع مطلب ہے کہ یہ معاملہ جرگوں اور پنچایتوں سے حل ہونے والا نہیں ہے لہٰذا اس علاقے کے وہ معززین جو جرگوں اور پنچایتوں میں شریک ہوئے، انھیں حقائق سے پردہ اٹھانا چاہیے کیونکہ یہاں معاملہ پاکستان کی سالمیت، اقتدار اعلیٰ کے تحفظ اور حکومت کی رٹ کا ہے۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ مقامی اشرافیہ ان شرپسند وںکے خلاف متحد نہ ہوئے تو نقصان ان کا اپنا ہو گا، عوام چھپے امن دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے خلاف کھڑے ہوں، ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو ادارے پوری قوت سیحرکت میں آ کر ایکشن لیں گے۔
اطلاعات کے مطابق امن معاہدے کے تحت آج ادویات اور اشیائے خور و نوش پر مشتمل پہلا قافلہ کرم کے لیے روانہ ہونا تھا، امن معاہدے کی ضمانت امن کمیٹیوں نے دی تھی۔ کمیٹیوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ امن خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی، اس حملے نے ناصرف قافلے کو روک دیا بلکہ عوام کو مزید مشکلات سے دو چار بھی کر دیا ہے۔
پاکستان اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ پرامن شہریوں کی جان، ان کے کاروباراور آزادیوں کا تحفظ یقینی بنائے۔بات صرف ضلع کرم اور پارا چنار کی نہیں ہے اور نہ ہی خیبر پختونخوا یا بلوچستان کی ہے، مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔پاکستان کے کسی حصے میں لااینڈآرڈرڈسٹرب ہوتا ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لیے نچلی سطح سے لے کر چوٹی کی سطح تک آئینی و قانونی پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ان پلیٹ فارمز کا مکمل طور پر فعال اور متحرک ہونا ریاست اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے لازم ہے۔
پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے جو غیرمعمولی ذہانت، زیرکی، معاملہ فمہی کے ساتھ ساتھ دوراندیشی اور سفارتی مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔پاکستان کو اپنی جغرافیائی حدود کے تحفظ کے لیے جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اندورنی دشمنوں کے خاتمے کے لیے متحرک اور فعال انتظامی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نظریاتی ابہام پیدا کرنے والی قوتوں کی پیدا کردہ کنفیوژن ختم کرنا بھی انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت کا رویہ، طرز سیاست اور نظریات سرد جنگ کے دور کی نفسیات کا شکار ہیں۔
عالمی صف بندی میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اور ریاستی بیانئے جس انداز میں ترتیب پا رہے ہیں، پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت ان سے نابلد نظر آتی ہے یا اس کے سیاسی و گروہی مفادات و تعصبات اس قدر ہیوی ہوگئے ہیں کہ وہ پاکستان کی باؤنڈری کے اندر بسنے والے عوام کے اجتماعی مفادات سے متصادم ہوگئے ہیں، اس لیے یہ طبقے اپنا انداز فکر اور طرز سیاست تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ لیکن زمین کے حقائق یہی ہیں کہ انھیں عالمی صف بندی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔