قائد اعظم ، ایک نہ جھکنے والا رہنما

وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح اس قلیل وقت میں پاکستان کے خواب کی تکمیل ہو جائے ۔


زمرد نقوی January 06, 2025
www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان 1947میں بنا لیکن قائداعظم محمد علی جناح کی صحت کی خرابی دس سال پیشتر ہی شروع ہو گئی۔ یہ 1937کی بات ہے کہ وہ لکھنؤ میں ایک اہم تقریب سے خطاب کرکے واپس ممبئی جارہے تھے کے ان پرکھانسی کا شدید حملہ ہوا ۔

اس وقت ان کی عمر 61سال تھی اگر ان کی بیماری کی خبر پھیل جاتی تو مسلمان ہند پر اس کا بُرا اثر پڑتا۔ ان کے حوصلے پست ہو جاتے اس کا حل محمد علی جناح نے یہ نکالا کہ انھوں نے عوام کے سامنے آنا کم کردیا تاکہ عوام پر ان کی صحت کی کمزوری ظاہرنہ ہو۔

دوسرا وہ ممبئی مالا بار ہل پر منتقل ہو گئے یہ محل نما رہائش گاہ 15000مربع گز پر مشتمل تھی ۔ محمد علی جناح سیلف میڈ تھے اپنی لیاقت ، ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے پیشہ ورانہ طور پر ترقی کرتے ہوئے انھوں نے ممبئی کے اعلیٰ ترین حلقوں میں مقام بنایا اور امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے ۔

برطانیہ میں لنکن ان جہاں ان کے پروفیسر ان کی ذہانت وقابلیت سے متاثر تھے بلکہ ممبئی میں بھی اعلیٰ انگریز قانون دان بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ پاتے ۔ جب قائد سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ انھوں نے لنکن ان میں داخلہ کیوں لیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہاں پر حضور ﷺ کا نام دنیا کے نامور قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر لکھا ہے ۔

قائداعظم کی صحت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی ۔ 1941 میں دوران سفر ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا یہاں تک کہ وہ بیہوش ہو گئے ۔1946 میں جب وہ شملہ میں تھے ان پر کھانسی کا شدید حملہ ہوا ۔ ڈاکٹر جے اے پٹیل ممبئی کے بہت بڑے ماہرفزیشن تھے بڑے بڑے لوگ ان سے علاج کرواتے ان کا بڑا نام تھا۔

شملہ سے ممبئی واپسی کے سفر میں ان کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ ان کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ فاطمہ جناح ڈر گئیں کہ جناح زندہ ممبئی واپس پہنچ سکیں گے یا نہیں ۔ انھوں نے ٹرین ہی سے کسی طرح ڈاکٹر پٹیل کو یہ پیغام بھیج دیا کہ آپ فوری طور پر جناح کو دیکھنے پہنچ جائیں۔ ممبئی سے کچھ دور ٹرین ایک نواحی اسٹیشن پر رکی تو ڈاکٹر پٹیل ٹرین پر سوار ہو گئے انھوں نے معائنہ کیا تو بیماری کی علامات کو دیکھ کر انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ حالت یہ تھی کہ قائداعظم سیدھے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے جب کہ ممبئی ریلوے اسٹیشن پر ایک بڑا مجمع ان کا انتظار کر رہا تھا۔

ڈاکٹر پٹیل قائد کی صحت کے حوالے سے انتہائی پریشان تھے ۔ انھوں نے جناح کے پھیپھڑوں کا ایکسرے کروانے کا فیصلہ کیا رپورٹ دیکھ کر ان کے ماتھے پر پسینہ آگیا ۔ دونوں پھیپھڑوں پر ٹینس بال جیسے بڑے دھبے نظر آرہے تھے ان کے پھیپھڑوں کا گوشت تقریباً گل گیا تھا۔ یہ جون 1946 کی بات ہے قیام پاکستان سے ایک سال پہلے ڈاکٹر پٹیل نے قائداعظم سے اپنے کلینک میں ملاقات کی ۔ ایکسرے رپورٹ کے بارے میں انھیں بتایا کہ وہ صرف ڈیڑھ دوبرس کے مہمان ہیں ۔ لیکن محمد علی جناح موت کو اتنا قریب پاکر بھی ذرہ برابر خوفزدہ نہ ہوئے، اس موقعے پر ڈاکٹر پٹیل سے قائد نے ایک اہم بات یہ کی کہ ان کی بیماری کا کسی کو بھی نہیں پتہ چلنا چاہیے ۔

نہ انگریزوں کو نہ کانگریس کو اور نہ مسلم لیگ کے کسی فرد کو ۔ وعدہ لیا کہ یہ راز قائد اور پٹیل کے درمیان رہے گا ۔ڈاکٹر پٹیل نے اپنا یہ وعدہ نبھایا ۔ انھوں نے ایکسرے کی یہ فائل اپنے آفس کے لاکر میں بند کردی ۔

پاکستان بننے تک کوئی بھی یہ راز نہ جان سکا کہ وہ ٹی بی کی ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ قائداعظم نے یہ راز بہن فاطمہ جناح اور بیٹی سے بھی چھپایا ۔ قائداعظم کسی صورت آرام کے لیے تیار نہیں تھے ۔ انھیں اپنی قریب آتی موت کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح اس قلیل وقت میں پاکستان کے خواب کی تکمیل ہو جائے ۔اس کا حل ڈاکٹر پٹیل نے یہ نکالا کہ قائداعظم پبلک میں کمزور نظر نہ آئیں ہر ہفتے قائد کو طاقت کا انجکشن لگا دیتے تھے ۔

برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن مطالبہ پاکستان کے اس بے لچک رویے پر قائداعظم سے عاجز آچکے تھے ۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ تقسیم کے بعد انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ جناح زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم نہ ہونے دیتا ۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان قائداعظم اور ان کے ٹائپ رائٹر نے بنایا اور قائد اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے۔ اگر اس عظیم کام میں ان کے ساتھ کوئی شامل تھا تو وہ ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح تھیں ۔ ان کو صحیح معنوں میں مادر ملت کا خطاب دیا گیا ۔اگر قائد کی بہن قیام پاکستان میں ان کا ہر قدم پر ساتھ نہ دیتیں تو پاکستان کا قیام بہت مشکل تھا۔

اس کے بعد کوئی تیسرا فرد اس عمل میں شامل تھا تو وہ ڈاکٹر جے اے پٹیل تھے جنھوں نے ہندو ہونے کے باوجود قیام پاکستان میں قائداعظم کی مدد کی ان کے راز کی حفاظت کرکے ۔ ڈاکٹر پٹیل کو صحیح معنوں میں بانیان پاکستان کے ساتھیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ہندو ہونے اور بھارت سے وفاداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ قائد کی انتہائی تشویشناک صحت اور بیماری سے انگریز اور کانگریس کو آگاہ کر کے قیام پاکستان کو ناممکن بنا سکتے تھے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں