کچھ لوگ نظر آتے ہیں، ان کا کام بھی دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگ نہیں نظر آتے ہیں، ان کا کام نظر آتا ہے، ان تک آپ کی رسائی بھی ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ ان دونوں قسم کے لوگوں سے الگ ہوتے ہیں۔ وہ نہ دکھائی دیتے ہیں اور نہ ان تک رسائی ہوتی ہے لیکن ان کا کام ایسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ دکھائی دیں یا نہ دکھائی دیں، ان کے وجود کا احساس ہر کسی کو ہوتا ہے۔ صحافت کی دنیا میں ارشد زبیری کو میں نے ایسا ہی پایا۔ یہی ارشد زبیری اب ہم میں نہیں رہے۔
محمد احمد زبیری مرحوم نے صحافت کا ایک تاج محل تعمیر کیا تھا۔ اس پیشے میں ہمارے یہاں ممکن ہے کہ ان سے بھی بڑے ادارے بلکہ سلطنتیں موجود ہوں لیکن بڑے زبیری صاحب کا ادارہ ان میں ممتاز تھا۔ کیسے؟ یہ سوال دلچسپ بھی ہے اور بنیادی بھی۔ ہمارے یہاں اکثر سوال ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافتی ادارے بنتے تو بڑی آب و تاب کے ساتھ ہیں لیکن ان کی زندگی بھڑکتی ہوئی شمع کی طرح ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ بڑے شور شرابے سے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں پھر ان کا ہونا نہ ہونا بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے زبیری صاحب کا تاج محل کیسا تھا؟ یہ نہ شہر بے کراں تھا اور نہ اتنا مختصر کہ جسے نظر انداز کیا جاسکے یعنی یہ اعتدال کے ساتھ اٹھائی ہوئی ایک دل کش عمارت تھی۔ یہ بیان درست ہو گا لیکن اس کے ساتھ ایک چیز اور بھی تھی جس پر لوگوں کی توجہ عام طور پر نہیں جاتی۔
آج ٹی وی وجود میں آیا تو اس کی کور ٹیم کے ساتھ جس شخصیت کا سب سے زیادہ ربط ضبط تھا، وہ آصف زبیری تھے۔ اس ادارے میں کام کرتے ہوئے بڑے زبیری صاحب کے تینوں بیٹوں کا مزاج ہم نے مختلف پایا۔ بڑے صاحب زادے وامق زبیری ہیں۔ محمد احمد زبیری صاحب کے جانشین۔ وہی عمر میں سب سے بڑے بھی ہیں۔ ان کی حیثیت بزرگ جیسی ہے۔ مہذب گھرانوں میں باپ کا کردار بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو دست یاب بھی ہوتا ہے، اس شفقت کا سایہ بھی آپ محسوس کرتے ہیں لیکن اس کا رعب داب آپ کو اپنے پر پرزے پھیلانے بھی نہیں دیتا ہے۔
وامق زبیری صاحب کو میں نے ایسا پایا۔ رہے آصف زبیری صاحب، میرا احساس تھا کہ وہ بڑے زبیری صاحب کی اولاد میں تیسرے نمبر پر ہیں یعنی وامق صاحبِ سے دو درجے نیچے۔ وہ بے تکلف آدمی ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری نشستیں رہی ہیں۔ ان کی مجلس آرائی بڑے بھائی جیسی ہوا کرتی تھی۔ وہ کھلے ڈلھے انداز میں شائستگی کے ساتھ گپ شپ کرتے۔ اپنے تجربات اور مشاہدات میں ہمیں شریک کرتے۔ یوں ان سے سیکھنے کا بہت سا موقع مجھے ملا۔ آصف زبیری صاحب کا یہ احسان ہے کہ ان کی وجہ سے صحافت کی دنیا کا ایک بہت بڑا راز میری سمجھ میں آیا۔ محمد احمد زبیری صاحب کی سلطنت کی ترقی، استحکام اور بقا کا راز بھی یہی تھا۔
یہ آصف صاحب ہی تھے جن کی وجہ سے میں جان پایا کہ ، بزنس ریکارڈر ' ہاؤس کی مضبوطی میں ارشد زبیری کا کردار کیا رہا نیز پاکستان کے مختلف صحافتی اداروں کی بنیاد کیا ہے اور ان کی کامیابی اور ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔ یہاں ناکامی کا لفظ دو طرح سے استعمال ہوا ہے یعنی عملا ناکام ہو جانا یعنی بالکل منہدم ہو جانا یا برقرار تو رہنا لیکن پیشہ وارانہ اہمیت اور احترام کھو بیٹھنا۔ آصف صاحب نے بتایا کہ کسی صحافتی ادارے کے پائیدار وجود کی ایک ہی بنیاد ہے اور وہ ہے صحافت۔ یہ بنیاد اگر قائم ہے تو ادارہ محفوظ رہے گا اور پھلتا پھولتا رہے گا۔ ہم سوال کیا کرتے کہ سر! صحافت تو سبھی کرتے ہیں۔
ایسے سوالات پر وہ مسکرا دیا کرتے اور کہتے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ اس کے بعد وہ تجزیہ کر کے بتاتے کہ صحافتی بنیاد کیا ہوتی ہے اور اس میں ملاوٹ کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ میں نے ان ہی سے سیکھا کہ کسی صحافتی ادارے کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ صحافت برائے صحافت کرے۔ یعنی صحافت خود ایک مقصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی نظریے کی آبیاری کے لیے یہ کام کر رہے ہیں یا اپنے سیاسی مفادات یا کچھ دیگر مفادات کے تحفظ کے لیے یہ کام کر رہے ہیں تو یہ صحافت نہیں۔ اس لیے آپ کی صحافتی بنیاد کبھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔
اس طرح آپ اپنی ساکھ قائم کر سکتے ہیں اور نہ اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ دیگر عوامل کی بنیاد پر آپ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن وہ ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی باڈی بلڈر دواؤں کے استعمال سے اپنی چمک دمک دکھائے پھرہمیشہ کے لیے مرجھا جائے۔ آصف زبیری صاحب کے ذریعے ہی میں یہ جان پایا کہ صحافت برائے صحافت بجائے خود ایک مقصد ہے۔ میڈیا ملائیس تھیوری (ابلاغی اضطراب)پر کام کرنے کے بعد اس انداز فکر کی اہمیت میری نظر میں مزید بڑھ گئی۔ پاکستان میں چند ادارے ہی ایسے ہیں جنھیں اس کا شعور تھا اور انھوں نے اس بنیاد پر اپنا وجود اور ساکھ برقرار رکھ کر عزت کمائی اور اپنے اور کارکنوں کے مفاد کو محفوظ رکھا۔ ان تھوڑے سے اداروں میں ایک محمد احمد زبیری مرحوم کا ادارہ بھی تھا۔
بات کافی طویل ہو گئی ہے لیکن یہ سوال ابھی تک برقرار ہے کہ محمد احمد زبیری مرحوم کی وراثت میں ارشد زبیری کیا تھے؟ میں نے دو کرداروں کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے لیکن ارشد زبیری ان دو میں ایک تو ہرگز نہیں تھے۔ وہ تیسرے تھے یعنی وہ محمد احمد زبیری کے تاج محل کا ایک منفرد لیکن ناگزیر ستون تھے۔ وہ اس ادارے کی طاقت کا راز تھے جو اپنے دفتر میں رہتے ہوئے وہ تمام کچھ کرتے جو ناگزیر تھا۔ وہ اگر دفتر سے نکل کر کہیں جاتے تو بھی صاف دکھائی دیتا کہ وہ اپنے اسی کردار کے ساتھ متحرک ہیں۔ وہ ' بزنس ریکارڈر ' ہاؤس کی ریڑھ کی ہڈی بھی تھے اور دماغ بھی۔
مجھے اس ادارے کو چھوڑے ہوئے بہت عرصہ بیت چکا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ دو دہائی۔ اتنا زمانہ گزر جانے کے باوجود آصف زبیری صاحب کا لہجہ اور لفظیات میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ وامق زبیری صاحب کا بھی لیکن اگر کسی کا انداز گفتگو اور آواز کا زیر و بم میرے ذہن میں محفوظ نہیں ہے تو وہ ایک ہی شخص ہے، وہ ہے ارشد زبیری۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے بات کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔ بالکل ملا۔ ان سے راہنمائی بھی حاصل کی۔ وہ بڑے شفیق انداز میں دھیرے دھیرے بات کرتے تھے لیکن وہ اتنی بات ہی کرتے جتنی ضرورت ہوتی۔
نہ ایک لفظ زیادہ اور نہ ایک لفظ کم۔ مداخلت بھی صرف اسی معاملے میں کرتے جس چیز سے ان کا براہ راست تعلق ہوتا۔ تو بات یہ ہے کہ اداروں کو زندہ اور توانا کیسے رکھا جاتا ہے، یہ بھی میں نے ان ہی کے انداز کار سے سیکھا۔ نیوز چینلوں میں ہمہ وقت ہنگامے اٹھتے رہتے ہیں۔ ان ہنگاموں میں تمام لوگ کچھ نہ کچھ ضرور کردار ادا کرتے ہیں لیکن آج ٹی وی کے ہنگاموں میں، میں نے ارشد زبیری کی مداخلت کبھی نہیں دیکھی۔ انھوں نے اگر کچھ کیا بھی ہو گا تو اپنی ڈومین میں رہ کر کیا ہو گا۔
کسی کو اس کی خبر ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، اس کی انھیں کبھی پروا نہ تھی۔ محمد احمد زبیری مرحوم کی پائیدار سلطنت کے سارے ستون ہی مضبوط اور اہم تھے لیکن ان میں ارشد زبیری صرف ایک تھا۔ پس منظر میں رہ کر بڑے کام کرنے والے اس مضبوط شخص کا ورثہ اب احمد زبیری کو سنبھالنا ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ارشد زبیری مرحوم نے بڑی محنت سے اس کی تربیت کی اور اسے سکھایا کہ بڑی محنت سے بنائے ہوئے اداروں کو برقرار کیسے رکھا جاتا ہے۔