تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور ان ہی کی طرح قومی اسمبلی میں ایک ذاتی نشست رکھنے والے علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ جس حکومت کے پاس جائز مینڈیٹ ہی نہیں اس حکومت سے کس بات کے مذاکرات؟ عجیب بات ہے کہ انھوں نے جس حکومت کو ناجائز کہا اسی حکومت سے وہ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ فوج، عدلیہ سمیت تمام اداروں کی گول میز کانفرنس بلائی جائے۔
دونوں رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت خود افغانستان کو دشمن بنا رہی ہے تو روس، بھارت اور پڑوسی ممالک کی بھی گول میز کانفرنس بلائی جائے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی افغانستان اور دراندازی کرنے والوں کی مذمت کرنے کے بجائے ان کی حمایت کر رہے ہیں جوکسی طور مناسب نہیں۔
محمود خان اچکزئی میاں نواز شریف کے بہت قریب اور (ن) لیگ کے حلیف تھے۔ 2013 میں نواز شریف وزیر اعظم تھے‘اچکزئی کے بھائی گورنر بلوچستان تھے جب کہ کئی عزیز حکومتی عہدے بھی تھے۔ ماضی میں بانی پی ٹی آئی ان پرکڑی تنقید کرتے تھے اور انھوں نے ان کی چادرکا مذاق بھی اڑایا تھا جس کا جواب محمود خان نے کبھی نہیں دیا۔ محمود خان خود کو فخریہ افغان کہتے تھے اور سیاست پاکستان میں کرتے تھے اور افغانستان کے ہمدردوں میں شمار ہوتے تھے اور طویل عرصے تک مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلیف رہے۔
گزشتہ فروری کے انتخابات میں محمود خان بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جہاں سے مولانا فضل الرحمن کو بھی انھوں نے منتخب کرنے میں سیاسی مدد کی تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک سیکولر قوم پرست لیڈر ہے جب کہ دوسراسیکولر ازم مخالف مذہبی لیڈر ہے۔ مولانا قومی سیاست کرتے ہیں اور جے یو آئی قومی جماعت اور مولانا کا شمار قومی رہنماؤں میں ہوتا ہے جب کہ محمود خان کی پارٹی کا زیادہ اثر بلوچستان کے پشتو بولنے والے اضلاع تک محدود ہے اور وہ علاقائی رہنما ہیں مگر اکثر متنازع بیانات دینے میں مشہور ہیں اور اب بھی انھوں نے علامہ ناصر عباس کے ساتھ مل کر متنازع پریس کانفرنس کی ہے۔
بانی پی ٹی آئی سیاست میںاسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے زبردست حامی تھے جن کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے اور بعد میںجب ان کی حکومت کا تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میںخاتمہ کیا گیا، جس کے بعد انھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو منانے کے لیے ان سے خفیہ ملاقاتیں کیں مگر ناکام ہو کر انھوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا لیا اور محمود اچکزئی تنہائی کا شکار ہونے کے بعدبانی پی ٹی آئی کی حمایت کرنے لگے تو بانی پی ٹی آئی نے انھیں تحریک تحفظ آئین کا سربراہ بنا دیا۔
حکومتی پارٹیوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) سے ناراضگی کی وجہ محمود خان کی یہ بھی ہے کہ نئی حکومت سازی میں (ن) لیگ اور پی پی نے مولانا کی طرح محمود خان کو بھی نظراندازکیا تھا جس پر وہ اپوزیشن کی طرف چلے گئے مگر پی ٹی آئی سیاسی مفاد کے لیے مولانا کے گھر چکر کاٹتی رہی اور محمود خان کو نہیں پوچھا اور یہی کچھ پی ٹی آئی نے علامہ ناصر کے ساتھ کیا اور دونوں کی مشاورت کے بغیر اس حکومت سے مذاکرات شروع کر دیے جس کو وہ ناجائز اور فارم 47 کی حکومت قرار دیتی ہے۔
تحریک تحفظ آئین کو پی ٹی آئی اہمیت دیتی ہے نہ سیاسی معاملے پر ان سے مشاورت کرتی ہے جس پر محمود خان اور علامہ ناصر نے پریس کانفرنس میں اپنی پی ٹی آئی سے ناراضگی ظاہرکردی ہے جب کہ علامہ صاحب مذاکراتی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی طرف سے شامل بھی ہیں مگر محمود خان شامل نہیں اور دونوں اس حکومت سے مذاکرات کے مخالف ہیں جس کو وہ ناجائز بھی قرار دیتے ہیں دونوں اپوزیشن میں رہ کر اپوزیشن کی اپوزیشن کر رہے ہیں اور یہ دونوں رہنماؤں کی اپوزیشن دوہرے کردار کی حامل اپوزیشن ہے۔