خیال تھا کہ میرے پاکستان سے خیر کی خبریں آیا کریں گی جو میرے لیے چین اور سکون کا موجب بنیں گی۔ مگرتم لوگوں نے تو یہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیا۔ کوئی دن نہیں جاتا جب تمہاری طرف سے مجھے کوئی نیا صدمہ نہیں پہنچتا۔ تم اپنی حرکتوں سے ہر روزمیرے دکھوں میں اضافہ کرتے ہو۔ کس قدر دکھ اور شرم کی بات ہے کہ نئے سال کے آغاز پر بجائے اس کے کہ تم اپنی غلطیوں کا جائزہ لیتے اور اپنے خالق سے اپنی کوتاہیوں اور جرائم کی معافی مانگتے، تم نے کروڑوں روپے آتشبازی میں جھونک دیے ہیں۔
اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو اور سوچو کہ کس بات کے جشن مناتے پھررہے ہو، اس بات پر کہ میرے پاکستان کے 23 ہزار شہری دوسرے ملکوں میں جرائم کا ارتکاب کرنے پر گرفتار ہوئے اور دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیںیا اس بات پر کہ تمہارے حکمران کشکول لے کر ملکوں ملکوں بھیک مانگتے پھررہے ہیں۔ دنیا کے وہ ملک جومیرے شاندار پاکستان کو مسلم دنیا کا سردار سمجھتے تھے، وہ تمہیں ویزے دینے سے انکاری ہیں۔ جو ملک پاکستان سے بے پناہ محبّت کرتے تھے، آج وہ تمہارے بھائی بندوں کے کرتوتوں کے باعث پاکستان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی بداعمالیوں نے میرے پاکستان کو اس کی خودمختاری سے محروم کردیا ہے۔ میرے قریبی ساتھی اصفہانی کی اورئینٹ ائیرلائنز، جسے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائینز کا نام دیا گیا تھا، چند سالوں میں دنیا کی تین بہترین ائیرلائینز میں شامل ہوچکی تھی۔ اُسی کے قابل اور تجربہ کار اسٹاف نے مڈل ایسٹ اور کئی دوسرے ممالک کی ائیرلائینز قائم کی تھیں۔ اور آج اُس قابلِ فخر نیشنل فلیگ کیرئیر کو بیچا جارہا ہے،کسی گھر کے قیمتی اثاثے گھر کے بڑوں کی نااہلی کے باعث ہی بکتے ہیں۔
آج سے سو سال پہلے میرے دوست اور مسلم دنیا کے عظیم شاعر اور مفکّر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے بتادیا تھا کہ اگر برّصغیر کے مسلمان ہندو اکثریت کے ساتھ رہے تو وہ نہ صرف اپنے معاشی اور سیاسی حقوق سے محروم ہوجائیںگے بلکہ اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت بھی کھودیں گے۔ میں نے اور میرے سیاسی رفقاء نے ان کے نظرّئیے کی صداقت کو تسلیم کرلیا اور اسی کی بنیاد پر علیحدہ ملک کے لیے ایک تاریخی تحریک چلائی اور بالآخر پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات شودروں سے بدتر ہوچکے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، وہ ہمارے نظریئے اور خدشات کی سو فیصد تصدیق کرتا ہے۔
اگر ملک کے نوجوانوں کو اِن حقائق سے روشناس کرایا جاتا تو انھیں آزادی کی قدرو قیمت معلوم ہوتی مگر تم تو صرف اپنی پارٹیوں اور اپنے اداروں کے بیانیئے بنانے میں مگن ہو۔ تمہارے سیاستدان اور حکمران نئی نسل کو یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ آزادی کے لیے ہمیں کتنی قربانیاں دینی پڑیں، ہمارے لاکھوں مرد اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچنے کی جدّوجہد میں شہید ہوگئے اور ہزاروں بیٹیوں کی عصمتیں قربان ہوئیں۔ کیا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کبھی موثّر انداز میں یہ بتایا گیا کہ ہندوستان سے بیس افراد کا قافلہ چلاتو صرف دو بچ سکے اور گھر کے سولہ افراد روانہ ہوئے تو صرف ایک زندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکاتھا، یہ حقائق نہیں بتائے گئے۔
اپنے گھر بار لٹا کر وہ اپنے خوابوں کی جس جنّت میں پہنچنے کے لیے بے تاب تھے، وہ ایک ایسا ملک تھا جس کے ہر ایوان اور ہر دفتر سے دیانت اور ایثار کی کرنیں پھوٹتی ہوں، جہاں انصاف اور مساوات کی ہوائیں چلتی ہوں، جہاں ہر شخص کو اس کا حق بغیر کسی مشقّت اور رکاوٹ کے ملتا ہو، جہاں جمہور کا راج اور قانون کی حکمرانی ہو، جہاں بدیانتی اور حرام خوری کا تصوّر تک نہ ہو اور جہاں کے سرکاری اہلکار صرف رزقِ حلال کھانے والے اور عوام کی خدمت کے جذبوں سے سرشار ہوں۔ مگر تمہارے اقتدار پرست جرنیلوں، کرپٹ سیاستدانوں اور بے ضمیر ججوں اور بیوروکریٹوں نے اسے جنّت کے بجائے ہوس پرستی اور حرام خوری کا گڑھ بنادیاہے۔
اسی لیے تمہارے نوجوانوں کو آزادی جیسی نعمت کی کوئی قدر نہیں۔ وہ اس خود اعتمادی سے محروم ہیں جو آزاد قوموں کا خاصہ ہوتا ہے ، وہ آج بھی مغرب سے مرعوبیّت اور احساسِ کمتری کا شکار ہیں کیونکہ آپ کے لیڈر اور آپ کے ٹی وی چینلز اس احساسِ کمتری کی شدّت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے چینلز قومی تہواروں پر اعلیٰ پائے کے استادوں اور دانشوروں کے بجائے صرف ایکٹرسوں اور کھلاڑیوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں، کیا تم نے نئی نسل کو صرف ڈانسر اور کھلاڑی بنانا ہے؟
میں نے اپنی سیکڑوں تقریروں کے ذریعے واضح طور پر بتادیا تھا کہ نئے ملک کو آمریّت کے ذریعے نہیں جمہوریّت کے ذریعے چلایا جائے گا مگر میرے دنیا سے اٹھ جانے کے فوراً بعد اُن طالع آزماؤں نے ملک پر قبضہ کرنے کی سازشیں شروع کردیں جن کا اس کے قیام میں کوئی کردار نہیں تھا۔
سازشی عناصر نے اس ملک کے اقتدار پر قبضے کی خاطر میرے معتمدِ خاص اور جانشین لیاقت علی خان کو شہید کرادیا اور پوری قوم بے بسی سے دیکھتی رہی۔ نہ صرف قاتلوں کو ان کے جرم کی سزا نہ ملی بلکہ وہ اس ملک پر قابض ہو کر اس کے حکمران بن بیٹھے۔ تم جس ملک میں آزادی کا لطف اُٹھارہے ہو اور جائیدادوں کے مالک بنے ہوئے ہو۔ اسے قائم کرنے میں 70% کردار ہمارے بنگالی بھائیوں کا تھا مگر تمہارے حکمرانوں نے ان کے ساتھ غیر منصفانہ اور توہین آمیز سلوک روارکھا جس نے انھیں بغاوت پر مجبور کردیا۔ ابھی اسے قائم ہوئے 25 سال بھی نہ ہوئے تھے کہ ملک پر قابض ہوس پرست آمروں، نااہل سیاستدانوں اور بے ضمیر بیوروکریٹوں کی بداعمالیوں نے میرے پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا۔
یہ وہ زخم ہے جس کی ٹیسیں ہر روز محسوس ہوتی ہیں اور دسمبر آنے پر تو اس کا درد ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ 16دسمبر کو ہرسال دوست اور رفقائے کار میرے پاس جمع ہوتے ہیں، لیاقت علی، محمد علی جوہرؔ، نشترؔ اور ظفر علی بھی ہوتے ہیں، بہادر یار جنگ ، شبیر احمد عثمانی، ناظم الدین اور تمیزالدّین بھی آتے ہیں۔ اس بار تو سرسیّد اور حالی کے ساتھ مسلم لیگ کے بانی نواب سلیم اللہ اور پہلے صدر آغا خان بھی تشریف لائے تھے، سیّد علی گیلانی بھی آئے ہوئے تھے۔
اس موقع پر تمام شرکاء ہمارے نظریاتی گائیڈ اور مرشد ڈاکٹر اقبال صاحب سے کچھ سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور جب ڈاکٹر صاحب سقوطِ اُندلس اورسقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے نظمیں پڑھتے ہیں کہ عرش ہِل جاتا ہے اور سامعین کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔اِس بار انھوں نے شہدائے غزہ کے بارے میں ایسے دردناک شعر سنائے کہ فرشتے بھی تڑپ اُٹھّے اور تمام حاضرین اشکبار ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب کے کلام کی تاثیر کا یہ عالم ہے کہ اسے سننے کے لیے اب خمینی صاحب کی قیادت میں ایرانی، عدنان میندریس کی قیادت میں ترک اور عزّت بیگووچ کی قیادت میں یورپین بھی پہنچ جاتے ہیں، تاجک، ازبک، چیجن، افغان، فلسطینی اور عرب بھی بڑی تعداد میں آنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شیرِ میسور سلطان ٹیپو شہید کو شرکت کی دعوت بھیجی تو جواب آیا کہ ’’عندلیبِ باغِ نبوّت ؐ کی طرف سے بلاوا آئے تو ناں کیسے ہوسکتی ہے‘‘ اگلی بار سلطان شہید ہماری تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوںگے۔ ہم نے اسلامی تاریخ کے بطلِ جلیل جناب صلاح الدین ایوبی کو بھی شرکت کی درخواست بھیجی تھی جو انھوں نے قبول فرما لی ہے۔ امید ہے کہ غازیٔ اعظم بھی کسی وقت ہماری تقریب میں تشریف لائیں گے۔
اہلِ پاکستان کے لیے یہ شرم کا مقام ہے کہ میرے پاکستان میں میرے نظریاتی گائیڈ ڈاکٹر اقبال صاحب کا کلام تعلیمی نصاب سے نکال دیا گیااور ٹی وی چینلوں کو تو کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ پاکستان کے مفکّر کی فکر کو اجاگر کرے اور نئی نسل تک پہنچا سکے۔ تمہاری کس کس نالائقی کا ذکر کیا جائے، تم سے تو یہ نہ ہوسکا کہ 75 سالوں میں اپنی قومی زبان اُردو کو دفتری اور عدالتی زبان بنا لیتے، اس کی وجہ تمہارے سول اور عسکری حکمرانوں کا شدید احساسِ کمتری ہے اور کچھ نہیں۔
اگر قومی زبان کے ساتھ تمہارا مجرمانہ سلوک اسی طرح رہا تو تمہارے بچوں کا اپنے دین اور ملک کے ساتھ رشتہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ یہ سوچ کر دل کٹتا ہے کہ تم نے اپنی شہ رگ کشمیر کو فراموش کردیا ہے اور غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے، یہاں اس کی کہانیاں سنکر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ صد افسوس کہ مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے مسلم دنیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے سوائے Lip Service کے، کچھ نہیں کیا۔
اِس پر سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے۔ آسمانوں کے باخبر ذرایع بتاتے ہیں کہ غزہ میں شہید ہونے والے بیس ہزار بچّوں کودربارِ الٰہی سے دعوتِ دیدار وگفتار مل چکی ہے مگر اس سے پہلے وہ کچھ دن حضور نبی کریمﷺ کے مہمان ہوںگے۔ ذرا سوچو! جب معصوم شہیدوں نے دامنِ مصطفیٰؐ پکڑ کر تمہاری بے حسی کی شکایت کی تو بتاؤ کیا جواب دوگے؟ کیا منہ دکھاؤ گے؟ تمہارے لیے یہ بات باعث ِشرم ہے کہ اب بھی اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے بجائے شادیوں پر کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کررہے ہو۔
یاد رکھو! ملک اسٹاک ایکسچینجوں سے نہیں، مضبوط اخلاقی بنیادوں اور قانون کی حکمرانی سے چلتے ہیں۔مگر تمہارا حال یہ ہے کہ پوری قوم moral bankruptsy کا شکار ہے، آئین بے وقار ہے اور میڈیا پابندیوں میں گرفتار ہے، بیلٹ کا تقدّس ختم ہوچکا، عدلیہ کمزور ہوچکی اور نام نہاد جمہوریت آہنی شکنجوں میں ہے، قانون، صاحبانِ اقتدار کے ہاتھ کی چھڑی بن چکا اور سول سرونٹس حکمرانوں کے ذاتی نوکروں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ احتسابی اداروں کے دانت نکال دیے گئے ہیں اور اب ہر صوبے میں کرپشن کا راج اور اقرباء پروری کا عروج ہے۔ نوجوان مایوس ہیں اور پروفیشنلز ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔کیا حال کردیا ہے تم نے میرے پاکستان کا !! فقط۔محمد علی جناح