یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

’’پری‘‘نہفہ رخ و دیودر کرشمہ حسن بسوزعقل زحیرت کہ ایں چہ بولعجبی ست


[email protected]

یہ جو آج کل ہورہا ہے فلسطین میں، کشمیر میں، شام میں، لبنان میں، یمن میں۔یہاں وہاں نہ جانے کہاں کہاں۔یہ بھی دلچسپ معمہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ معاملہ ان سرگرمیوں کے نام ہیں،کوئی اسے جہاد کہتا ہے کوئی جنگ آزادی، کوئی دہشت گردی،شرپسندی،لاقانونیت اور نہ جانے کیا کیا؟ یہ تو اب طے ہوچکا ہے کہ ساری دنیا کے میڈیا کا (96) فیصد یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہ بھی ظاہر ہوچکا ہے کہ دنیا کی کل دولت کا(68) فیصد بھی یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے۔

ایسے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سقراط بقراط جو دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں طرح طرح کے فلسفے بگھار رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دیو استبداد کے لیے رنگا رنگ ملبوسات سی رہے ہوں تاکہ اس کے اندر جو ’’دیو‘‘ کا جسم ہے وہ نیل پری کے لباس میں چھپا رہے ۔ حافظ شیرازی نے تو بہت پہلے اس کی نشان دہی کی تھی کہ

’’پری‘‘نہفہ رخ و دیودر کرشمہ حسن

بسوزعقل زحیرت کہ ایں چہ بولعجبی ست

یعنی پری منہ چھپائے بیٹھی ہے اوراس کی جگہ ’’دیو‘‘ اپنے حسن کے کرشمے دکھا رہا ہے اس بوالعجبی پر عقل کو راکھ ہونا چاہیے۔ عام طور پر ملک کے تفتیشی اداروں کا پہلا اصول یہ ہے کہ جہاں کوئی قتل ہوتا ہے اور قاتل نامعلوم ہو تو ’’موٹیو‘‘یا محرک تلاش کیا جاتا ہے اور اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’فائدہ‘‘ کس کو ہوا ہے۔

اب یہ جو جگہ جگہ قتل وقتال، خونریزی، تباہی اور جنگ وجدل کا سلسلہ جاری ہے اس میں یہی تفتیش کا اصل طریقہ ہے اور جب ہم یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو وہ تمام عناصر،گروپ اور تنظیمیں یا ممالک جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے خسارے میں ہیں۔طالبان بھی خسارے میں ہیں۔ ان کو روکنے والے بھی خسارے میں جہاں جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے وہ ممالک اور علاقے بھی خسارے میں ہیں یا یوں کہیے کہ مرنے والے بھی خسارے میں ہیں اور مارنے والے بھی۔تو فائدہ کس کو ہوا؟۔اس ہتھیار سازوں کو جن کے کارخانے دھڑادھڑ ہتھیار تیار کررہے ہیں بیچ رہے اور پھیلارہے۔ظاہر ہے کہ ہتھیار نہ تو کھانے کی چیز ہیں، نہ پہننے کے، نہ اوڑھنے کے اور نہ کسی اور کام کے۔صرف مارنے کے کام آتے ہیں اور جنگ و جدل لڑائی مارکٹائی ہی ان کی مارکیٹ ہے۔اور یہ بھی ہمارے ان سارے مصنوعی دانا دانشوروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہتھیار سازی کی بے پناہ تجارت اور انڈسٹری کس کے ہاتھوں میں ہے۔

جنگ عظیم دوم کے بعد کے اعداد وشمار جمع کیے جائیں تو دنیا کی تمام سرمایہ دار کمپنیوں کے سرمائے کا رخ ہتھیارسازی کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ تمام بڑی بڑی کمپنیاں اورگروپ آف کمپنیز بڑھ بڑھ کر ہتھیارسازی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ یہاں تک سوفٹ ڈرنک بنانے والے،سرخی پاوڈر بیچنے والے الیکٹرانک یہاں کہ دواساز کمپنیاں بھی ہتھیار سازی کی صنعت میں شامل ہورہے ہیں کیونکہ اب ہتھیارسازی صرف تفنگ تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ یوں ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں تک پھیل چکی ہے۔یہ جو ہم سنتے ہیں کہ یورپ اور امریکا نے فلاں فلاں ملک کو اتنے اتنے ارب کھرب کے ہتھیار بیچ دیے تو یہ ہتھیار وہ ممالک خود تیار نہیں کرتے بلکہ کمپنیوں سے خرید کر آگے بیچتے ہیں۔

یہ سلسلہ صرف ظاہری طور پر ممالک کی سطح پر نہیں بلکہ غیرقانونی طور پر بھی اسلحہ فروشی کا ایک وسیع اور مضبوط نیٹ ورک قائم ہے اور یہ سارے سلسلے جاکر یہودی مالی مافیا تک پہنچ جاتے ہیں یا وہاں سے چلتے ہیں اور میڈیا سے لے کر سیاسی اور مذہبی عناصر بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہیں حکومتوں کے اندر بھی اس زنجیر کی کڑیاں پھیلی ہوتی ہیں۔اب اس عالمی تجارتی مالی اور ہتھیارساز انڈسٹری کی دلچسپ بات ہے کہ اس کو اگر ہم ایک بہت بڑی مشین فرض کرلیں جو انسانی خون سے سکے بنارہی ہے۔تواس میں ایسے پرزے بھی ہیں گراریاں بھی شامل ہیں جن کے بارے میں وہم وگمان تک نہیں کیا جاسکتا کہ نہایت ہی دین دار، ایمان دار اور انسانی امن و آشتی کے علمبردار بھی اس زنجیر کی کڑیاں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں