آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

ہمارے ہمسائے افغانوں میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ جنگجو ہیں‘ بڑی سے بڑی طاقت سے خائف نہیں ہوتے


جاوید چوہدر ی January 09, 2025
www.facebook.com/javed.chaudhry

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے زمانے میں شمالی اتحاد سے اپنے تعلقات بہتر بنانا شروع کیے‘ حامد کرزئی افغانستان کے صدر تھے‘ افغانستان کے شمالی علاقے اس زمانے میں بھی حکومت کے اثر سے باہر تھے‘ ان پر شمالی اتحاد کے لوگ قابض تھے‘ احمد شاہ مسعود 2001میں فوت ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود قبر سے پورے خطے پر حکمرانی کر رہا تھا‘ یہ لوگ روس نواز تھے، اس لیے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے تھے‘ پاکستان نے افغانستان کے لیے بہت قربانیاں دیں‘ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر سوویت یونین کے خاتمے تک پہلے افغان کمانڈرز کی پرورش کی ‘ ہم پھر طالبان کی مدد میں جت گئے اور آخر میں ہم حامد کرزئی کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔

 اس سارے دور میں شمالی اتحاد ہم سے ناراض رہا ‘ رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود پاکستان کے کھلے دشمن تھے‘ بہرحال قصہ مختصر پاکستان نے شمالی اتحاد کے ساتھ بھی ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ قائم کرنا شروع کر دیا‘ کابل میں موجود پاکستانی سفیر وادی پنج شیر میں شمالی اتحاد کے مرکز میں جانے لگے۔

 پاکستان کا سفارتی عملہ احمد شاہ مسعود کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھاتا تھا اور اس کے صاحب زادے احمد مسعودسے ملاقاتیں بھی کرتا تھا‘ یہ خبر افغان صدر حامد کرزئی تک پہنچی تو انھوں نے پاکستانی سفیر کو بلا کر کہا ’’آپ کا کیا خیال ہے آپ اب شمالی اتحاد کو بھی خرید لیں گے‘‘ سفیر نے احترام سے جواب دیا ’’صدر محترم ہم نے اس سے قبل کس کو خریدا ہے؟‘‘

حامد کرزئی کا جواب تھا ’’آپ لوگوں نے برہان الدین ربانی اور حکمت یار کو خریدا تھا‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’سر ہو سکتا ہے یہ واقعہ ماضی میں ہوا ہو لیکن جب سے آپ آئے ہیں یا میں کابل میں موجود ہوں، ہم نے کسی کو خریدنے یا بیچنے کی کوشش نہیں کی‘‘ حامد کرزئی مسکرائے اور اس کے بعد کہا ’’آپ جنرل کیانی کو میرا پیغام پہنچا دیں، آپ لوگ افغانوں کو خرید نہیں سکتے‘ آپ انھیں صرف کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں‘‘ پاکستانی سفیر انتہائی سنجیدہ اور تجربہ کار تھا لیکن یہ سن کر اس کی ہنسی بھی نکل گئی اور وہ حامد کرزئی کو داد دینے پر مجبور ہوگیا۔

ہمارے ہمسائے افغانوں میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ جنگجو ہیں‘ بڑی سے بڑی طاقت سے خائف نہیں ہوتے‘ کم وسائل میں گزارہ کر لیتے ہیں‘ مہمان نواز ہیں‘ اچھے مسلمان ہیں اور اپنی قبائلی روایات سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ان میں ایک خامی بھی ہے اور وہ خامی ہے دولت سے محبت اور شاید ڈی این اے کی یہی وہ خامی ہے جس کی وجہ سے یہ صدیوں تک ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے‘ ہم محمود غزنوی‘ شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کے لاکھ گن گا لیں۔

 ہم انھیں ہزار بار اپنا ہیرو مان لیں مگر اس کے باوجود یہ حقیقت حقیقت رہے گی یہ لوگ ہندوستان کی دولت اور خوش حالی کا پیچھا کرتے ہوئے ہر موسم بہار میں درہ خیبرعبور کرتے تھے اور آدھے ہندوستان کو گھوڑوں کے سموں تلے روند کر سب کچھ سمیٹ کر واپس چلے جاتے تھے اگر ان کا مقصد صرف اسلام اور کفرستان کو مٹانا ہوتا تو یہ ہندوستان کے بجائے چین جاتے‘ چین میں اس زمانے میں زیادہ کفر تھا لیکن چین میں کیوں کہ تگڑی حکومتیں تھیں اور ان کی فوجیں زیادہ ٹرینڈ اور بڑی تھیں چناں چہ افغان مجاہدین نے کبھی اس طرف رخ نہیں کیا‘ دوسرا یہ انیسویں صدی تک برطانیہ اور زار روس سے رقم وصول کرتے رہے۔

 پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین ان کی مدد کرتا رہا‘افغان جہاد شروع ہوا تو یہ امریکا‘ یورپ اور عربوں سے رقم اینٹھنے لگے اور آخر میں پوری دنیا ان کے لیے منڈی بن گئی چناں چہ حامد کرزئی نے اپنے ڈی این اے کی درست نشان دہی کی تھی‘یہ اصل افغان کریکٹر ہے‘ آپ آج کی مثال بھی لے لیجیے‘ امریکا یا نیٹو فورسز نے 2021میں افغانستان چھوڑ دیا تھا‘ پاکستان اور امریکا دونوں افغانستان میں کولیشن حکومت چاہتے تھے لیکن اشرف غنی کے فرار کی وجہ سے طالبان پورے ملک پر قابض ہو گئے اور انھوں نے عارضی حکومت بنالی‘ امریکا نے اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ یہ آج بھی طالبان کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود امریکااب تک تین برسوں میں افغانستان پر 21 بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے‘ یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی اس کی تفصیل طویل ہے‘ ہم سردست آپ کو دو حقیقتیں بتاتے ہیں۔

 امریکا نے یو این کے ذریعے افغانستان میں تعلیم‘ انسانی حقوق اور صنفی آزادیوں کے چند ادارے بنارکھے ہیں‘ یہ ادارے نام کے ہیں اور افغان معاشرے میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن امریکا یو این کے ذریعے ہر ہفتے افغانستان کو 40 ملین ڈالر دیتا ہے‘ یہ رقم کینیا کے ذریعے کابل پہنچائی جاتی ہے‘ ہر منگل کے دن نیروبی سے یو این کا خصوصی جہاز کابل آتا ہے‘ اس سے 40 ملین ڈالر کے باکس اتارے جاتے ہیں اور یہ رقم افغانستان کے ریزرو بینک میں جمع کرا دی جاتی ہے‘ یو این بعدازاں ریزرو بینک سے افغانی کرنسی نکال کر این جی اوز کو دے دیتا ہے اور یہ طالبان حکومت کے لیے امریکا کی سیدھی سادی مدد ہے‘ ہم اگر افغانستان کی اکانومی کو دیکھیں تو یہ شیخو پورہ کی معیشت سے بھی چھوٹی ہے۔

 اس چھوٹی سی معیشت میں 160 ملین ڈالر ماہانہ اور تقریباً دو بلین ڈالر سالانہ کا اضافہ ایک بہت بڑی مدد ہے اور یہ سلسلہ پچھلے تین برسوں سے چل رہا ہے‘ دوسرا امریکی سی آئی اے بھی افغانستان میں فنڈنگ کر رہی ہے‘ سی آئی اے کا ڈائریکٹر اور اس کا اسٹاف کابل میں موجود ہے‘ یہ لوگ القاعدہ اور داعش کے کنٹرول کے نام پر طالبان کی اکانومی کو سپورٹ کر رہے ہیں‘ کابل میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں افغانستان کے وزیردفاع ملا یعقوب کے بھارت سے تعلقات استوار ہو چکے ہیں اور بھارت بھی اب ٹی ٹی پی کے لیے افغانوں کو رقم دے رہا ہے چناں چہ طالبان اس وقت حامد کرزئی کے فارمولے کے مطابق امریکا اور بھارت کے لیے کرائے پر دستیاب ہیں حتیٰ کہ یہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے مجاہدین دکھا کر چین سے بھی رقم اینٹھ رہے ہیں‘ یہ سی آئی اے کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں آپ ہمیں اتنی رقم دے دیں ہم القاعدہ کو سرحدوں سے دور ہلمند میں آباد کر دیتے ہیں‘ سی آئی اے رقم دے دیتی ہے۔

 یہ القاعدہ کو ہلمند بھجوا دیتے ہیں لیکن چند ماہ بعد یہ سب واپس کابل آ جاتے ہیں اور اس کے بعد وصولیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ چین کے ساتھ بھی تین سال سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے‘ رقم لیتے ہیں‘ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے مجاہدین کو چین کی سرحد سے دور بھجواتے ہیں اور چند ماہ بعد یہ دوبارہ چین کی سرحد پر ہوتے ہیں‘امریکا اس جعل سازی سے پوری طرح واقف ہے لیکن جان بوجھ کر خاموش ہے‘ کیوں؟ ہم آگے چل کر آپ کو بتائیں گے۔ طالبان نے 2022 میںپاکستان کو بھی آفر کی تھی‘ آپ ہمیں 20 ارب روپے دے دیں ہم ٹی ٹی پی کو کنڑ‘ پکتیا اور خوست سے نکال کر وسطی افغانستان یا پھر ازبکستان کی سرحد پر شفٹ کر دیں گے‘ پاکستان راضی ہو گیا لیکن پھر کسی نے سمجھایا آپ ایک نیا کھاتا کھولنے لگے ہیں جس میں آپ کو ہر چند ماہ بعد مزید رقم ڈالنا پڑے گی لہٰذا پاکستان پیچھے ہٹ گیا۔

آپ کے ذہن میں یقینا اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا طالبان اور ٹی ٹی پی آخر پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟ ان کے دو مقاصد ہیں‘ اول پاکستان نے فاٹا ریفارمز کے ذریعے 2018میں فاٹا کا اسٹیٹس ختم کر دیا تھا‘ طالبان اور ٹی ٹی پی اس فیصلے کی واپسی چاہتے ہیں‘ اس کی وجہ ان کے ٹھکانے ہیں‘ یہ ماضی میں قبائلی علاقے میں آ کر چھپ جاتے تھے‘ یہ علاقے اب کیوں کہ سیٹل ایریاز بن چکے ہیں چناں چہ طالبان کو خطرہ ہے کل جب افغانستان سے ہماری حکومت ختم ہو جائے گی تو پھر ہم کہاں جائیں گے لہٰذا یہ فاٹا کی واپسی چاہتے ہیں اور دوسرا بیرونی طاقتیں ان کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔

 بھارت ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پرآزاد نہ ہو سکے جب کہ امریکا اور اسرائیل پاکستان کو جوہری طاقت سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور طالبان اورٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف ان دونوں کاموں میں استعمال ہو رہے ہیں اگر کوئی کسر باقی تھی تو یہ بانی پی ٹی آئی نے پوری کر دی‘ یورپی طاقتوں کو اب پاکستان کے اندربھی ایک ایسا شخص مل گیا ہے جو ملک کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر رہا ہے چناں چہ آپ صورت حال دیکھیں‘ عمران خان اندر سے سسٹم کو چیلنج کر رہا ہے‘دوسری طرف افغانستان کی سرحد پر طالبان اور ٹی ٹی پی بیٹھی ہے اور یہ روزانہ درجنوں جوانوں کو شہید کر رہی ہے‘ 2024میں پاک فوج کے 380جوان شہید ہوئے اور یہ چھوٹی تعداد نہیں اور تیسری طرف بھارت ہماری مشرقی سرحد پر بیٹھا ہے اور یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے چناں چہ آپ صورت حال کی نزاکت دیکھ لیجیے۔

پاکستان نے دسمبر 2024 میں دو سال کے تعطل کے بعد طالبان کے ساتھ رابطے اور مذاکرات شروع کیے‘ اس سے قبل ہمارے وزیرخارجہ نے دو سال میں افغان ناظم الامور سے ملاقات تک نہیں کی ‘ 24دسمبر کو محمد صادق خان کی سربراہی میں ہمارا وفد کا بل گیا‘ یہ وفد نائب صدر کے ڈنر میں بیٹھا تھا کہ 25دسمبرکی رات پاک فوج نے پکتیا کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے چار ٹھکانوں پر فضائی حملہ کر دیا جس میں 24 خود کش حملہ آور بھی مارے گئے اور ٹی ٹی پی کے بارود کا ذخیرہ بھی اڑ گیا‘ یہ طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کا بڑا نقصان تھا‘ پاکستان نے اب فیصلہ کیا ہے طالبان سے مذاکرات بھی جاری رہیں گے اور شرارت کی شکل میں آپریشن بھی اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ٹی ٹی پی ختم نہیں ہوجاتی‘ دوسری طرف طالبان ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں‘ اب اس صورت حال کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ یہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتاؤں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں