سمجھوتہ ،طے، پا جائے گا

سمجھوتہ۔ طے۔ پا جاتا ہے لگ گیا جب وہ گلے، سارا گلہ جاتا رہا


[email protected]

ڈرنے یاگبھرانے کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا، رام بھلی کرے گا کیوں کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں ، ہتھیار نکل آتے ہیں، دانت پسے جانے لگتے ہیں، لگتا ہے دونوں فوجیں لڑ پڑیں گی ، گھمسان کا رن پڑے گا، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے لیکن اچانک دونوں کے درمیان فائر ہونے سے پہلے سیز فائر ہو جاتا ہے، گلے مل جاتے ہیں اورسارے گلے جاتے ہوئے رہ جاتے ہیں ۔

سمجھوتہ۔ طے۔ پا جاتا ہے

 لگ گیا جب وہ گلے، سارا گلہ جاتا رہا

 کوئی دشمنی تو ہوتی نہیں بس ذرا مال غنیمت کی تقسیم پر تھوڑا سا پھڈا پڑا ہوتا ہے ، وہ ختم ہوجاتا ہے کیوں کہ خداکے فضل سے امریکا کی دعا سے، آئی ایم ایف کی آشیرواد سے اور لیڈروں کی محنت سے اس مفتوح ملک میں مال غنیمت بست وبسیار ہیں ۔ یہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، تاریخ کے ہردور میں ایسا ہوتا ہے ،جغرافیے کے ہرصفحے پر ہوتا آیا ہے اورسیاست کی ہرشکل میں ایسا ہوتا آیا ہے، ہورہا ہے اورہوتا رہے گا کہ فاتحوں کی مفتوح شہر کے مال غنیمت پر تھوڑی سی تو تو میں میں ہوجاتی ہے ،گرماگرمی ہوجاتی ہے، شرما شرمی ہوجاتی ہے لیکن پھر نرما نرمی ہوجاتی ہے ۔

 یہ سلسلہ اس وقت سے بدستور چلا آرہا ہے جب ’’لٹیرے ‘‘ کو خیال آیا کہ بستی کو لوٹ کو چلے جانے کی بجائے اس کے سر پر کیوں نہ مستقل بیٹھاجائے چنانچہ اس نے اپنا تخلص ڈاکو اورلٹیرے سے بدل کر حاکم اور محافظ رکھ لیا ، تلوار کے ساتھ کچھ اور’’ہتھیار‘‘ بھی استعمال کرنے لگا اورگائے کو ’’کھوہ‘‘ کرکھانے کی بجائے ’’دوہ‘ کرکھانا شروع کیا، اورمفتوح کامال لوٹ کرلے جانے کی بجائے چھین کر ہڑپ کرنے لگا۔ پھر وقت کے ساتھ اس کے ساجھے دار بھی بڑھ گئے تو مال غنیمت کی تقسیم کا یہ جھگڑا پیدا ہوگیا ، بادشاہ کے دور میں بھی پیدا ہوجاتا تھا جسے تلوار سے حل کیاجاتا تھا ۔ آمریت کے زمانے میں طاقت سے حل کیا جاتاتھا اوراب جمہوری دور میں مذاکرات اورسمجھوتوں سے حل کیا جاتا ہے ، موجودہ جھگڑا بھی آپ دیکھیں گے کہ ’’ملک‘‘ کے مفاد میں ’’طے‘‘ اور’’پا‘‘ جائے گا کیوں کہ فریقین کو ملک کامفاد بہت عزیز ہوتا ہے کہ وہ خود ملک بھی ہوتے ہیں اور مفاد بھی اورطے پا بھی

ہم کوزہ وہم کوزہ گروہم گل کوزہ

 اس نیک کام کے لیے بڑے اچھے ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں جن کے پاس زبردست قسم کا ڈیٹرجنٹ اورمشین ہوتی ہیں جو ضدی سے ضدی داغ بھی پلک جھپکنے میں صاف کرکے ’’دامنوں‘‘ کو سفید شفاف بنادیتے ہیں، چاہے وہ داغ ملین بلین کے کیوں نہ ہوں ۔توشہ خانوں، نوشہ خانوں اورگوشہ خانوں کے کیوں نہ ہوں۔

 پرانے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا کہ جب کسی شہر کو فتح کیاجاتاتھا تو پہلے کا مال غنیمت درجہ اول بادشاہ اوراس کے خاندان یا وزیروں کا ہوتا تھا پھر دوسرے دن کوخاص خاص افسر اورعہدے داروں کی باری ہوتی تھی، تیسرے دن عام لشکر کو مفتوح شہرپر چھوڑ دیا جاتا، آخر میں عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی۔ اس غرض کے لیے ہمیشہ فوج کے پیچھے پیچھے کچھ غنڈے موالی لگے ہوتے تھے، وہ بھی آکر مال غنیمت میں کچھ نہ کچھ پالیتے تھے ۔

اب اس مفتوح ملک میں ایک عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے، ایک گینگ جب ملک کو فتح کرتا ہے تو خاص خاص لوگ اوپر کے مورچوں میں بیٹھ جاتے ہیں اوراچھا اچھا بڑا بڑا مال غنیمت اپنی جھولی میں ڈالتے ہیں، دوسرے نمبر پر مشیر معاون اورعہدے دار ہوتے ہیں،آخر میں گینگ کے پنڑ لوگ جنھیں کارکن کہاجاتا ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں منہ گھساہی دیتے ہیں ،ایسے ہی یہ گینگ وار چلتے ہیں لیکن اختتام سمجھوتہ …اورطے پا… پر ہوجاتا ہے کہ تم بھی چوپو اورمجھے بھی چوپنے دو ، اب کے بھی آثار کچھ ایسے دکھائی دینے لگے ہیں کہ خیر ہوجائے گیا ۔ شہرمفتوح پر سمجھوتہ طے پا ہوجائے گا

 کہتے ہیں کچھ لوگ ایک صحر ا میں کہیں جارہے تھے کچھ زاد راہ پاس نہیں تھا اس لیے سخت بھوکے تھے کہ اچانک راستے میں ایک شخص ملا جو گدھے پر مولیاں بار کیے ہوئے کہیںلے جارہا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے مولیاں لیں اورکھانے لگے۔

قسمت دیکھئے کہ اسی وقت جھاڑیوں میں ایک خرگوش ملا اورایک پیڑ میں شہد کاچھتا دکھائی دیا، سب نے کوشش کرکے خرگوش کو بھی پکڑ لیا اورچھتے کو بھی حاصل کیا اب بھنے ہوئے گوشت اورشہد کے ہوتے ہوئے ’’مولیوں‘‘ کی کیاحیثیت تھی جو کچھ کھاچکے تھے وہ تو کھا چکے تھے باقی مولیوں کے قتلوں کو پھینک دیا۔ ایک بولا ، مولیاں ہونہہ۔ دوسرا بولا مولیاں اخ تھو۔ تیسرے نے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے مولیوں کے قتلوں پر پاؤں رکھ کر مسلا اور پیشاب کر دیا۔

شکم سیر ہوکر چل پڑے جہاں جاناتھا پہنچ گئے اور دوسرے تیسرے دن واپس چل پڑے اس مرتبہ بھی بھوک سے براحال تھا ۔جب مولیوں کے پرانے مقام پر پہنچ گئے مولی کے قتلے بدستور پڑے ہوئے تھے یہ لوگ خاموشی سے دیکھتے رہے پھر ان میں سے ایک نے اٹھ کر مولی کا ایک قتلہ اٹھایا اوربولا میرے خیال میں اس پر پیشاب کے چھینٹے نہیں پڑے ہیں اورکھالیا، اس طرح سب قتلے اٹھاتے رہے اورکھاتے رہے کہ یہ قتلہ بچا ہوا ہے تھوڑی دیر بعد وہاں ایک بھی قتلہ باقی نہ رہا سب صاف نکلے تھے۔

تو اگر کوئی ٹھان لے تو کل کی پیشاب زدہ مولیوں کو پلک جھپکنے میں صاف کرسکتا ہے اور اسے بڑے آرام سے نگل بھی سکتا ہے اور ڈیٹرجنٹ اچھا ہو تو داغ داغ دامنوں کو صاف و شفاف بھی کرسکتا ہے بس نیت اورارادہ نیک ہونا چاہیے۔ دیکھتے نہیں کہ یہ مفتوح شہرکتنی بار لوٹا گیا کبھی کسی چور لٹیرے کو پکڑاگیا؟ داغ مردہ باد ، ڈیٹرجنٹ زندہ باد… سمجھوتے پائندہ باد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں