نئے سال کے پانچویں دن کراچی کا ایک اور بچہ گٹرکا شکار ہوگیا۔ عباد کی عمر آٹھ برس تھی، وہ اپنے والدین کے ساتھ کالا پل کا رہائشی تھا۔ شاہ فیصل کالونی میں اس کی خالہ کا گھر ہے، خالہ کے ہاں یہ لڑکا پیدا ہوا تھا۔ خالہ نے بچے کے عقیقہ کا انتظام شاہ فیصل کالونی کے بلاک نمبر 2 میں ایک شادی ہال میں کیا تھا۔ یہ عقیقہ کی تقریب دوپہرکو منعقد ہوئی تھی۔
ابھی عقیقہ کی رسم منعقد ہورہی تھی کہ عباد ہال سے باہر چلا گیا۔ شادی ہال کے سامنے سے مرکزی گٹر لائن گزرتی ہے اورگٹر لائن سے کئی بڑے بڑے گٹر منسلک ہیں، گٹر ڈھکنوں سے محروم ہیں۔
عباد گٹر کے قریب گیا۔ وہ سڑک پرگزرنے والی گاڑیوں کو دیکھنے میں مصروف تھا یا کسی اشیاء فروخت کرنے والے کی طرف متوجہ تھا۔ اس کا پاؤں گٹر میں گر گیا۔
یہ گٹر انتہائی گہرا تھا۔ عباد اس گٹرکی گہرائی میں کھوگیا، یوں عباد کے اچانک لاپتہ ہونے پر اس کی تلاش شروع ہوئی۔ عباد کا ایک جڑواں بھائی حذیفہ بھی ہے جس کی وجہ سے ایک کنفیوژن پیدا ہوئی۔ کسی نے کہا کہ حذیفہ لاپتہ ہوا ہے۔ بہرحال بچے کی تلاش شروع ہوئی۔ حذیفہ سے دریافت کیا گیا تو عباد کہاں ہے تو پھرکسی بچے نے نشاندہی کی کہ عباد گٹر میں گرا ہے، پھر کسی نے ریسکیو کے عملے کو اطلاع دی۔
حکومت سندھ نے ریسکیو کا محکمہ گزشتہ سال ہی قائم کیا ہے۔ یہ محض نام کا محکمہ ہے۔ ریسکیو کا عملہ کچھ دیر بعد پہنچا۔ مگر ان رضاکاروں کے پاس نہ تو آکسیجن ماسک اور نہ ہی سلینڈر تھا نہ ہی اندھیرے میں تلاش کے لیے سرچ لائیٹیں تھیں نہ ہی جدید طرز کی سیڑھی تھی جو گٹر کے اندر تک جاتی۔ یوں رسیوں کی مدد سے رضاکار گٹر میں اترے۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ گٹر میں زہریلی گیس نہیں بن رہی تھی، یوں ان رضاکاروں کی جان تو بچ گئی مگر عباد کو تلاش نہ کیا جاسکا۔
اس دوران شام ہونے لگی۔ کراچی میں جنوری کے مہینے میں شام 5 بجے سے اندھیرے کے اثرات رونما ہونے لگتے ہیں۔ ریسکیو کے عملے کے پاس جدید نوعیت کی لائٹیں نہیں تھیں۔ ایک رپورٹر نے اپنے ٹی وی چینل کو یہ خبر دی کہ گٹر میں پانی کا بہاؤ ہے، یوں عباد کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہیں اور ویسا ہی ہوا۔ عباد کی جان بچانے کی کوشش باور ثابت نہ ہوسکی۔ اس دوران پولیس کو اطلاع ملی کہ قریبی ندی میں ایک بچے کی لاش ملی ہے۔ اس طرح عباد کی زندگی کا چراغ گل ہوا۔ عباد کے والد اسد گلف میں مزدوری کرتے ہیں، انھیں اپنے لختِ جگر کی موت کی اطلاع دی گئی۔
شاہ فیصل کالونی کے ایک مکین نے بتایا ہے کہ اس علاقے میں گٹر ایک سیریز میں تعمیر ہوئے ہیں اور یہ گٹر ملیر ندی سے منسلک ہیں۔ ان گٹروں پر تعمیرکے بعد سے ہی ڈھکنے نہیں لگائے گئے۔ رات کے وقت اندھیرے میں گٹر ابلنے کے بعد جب پورے علاقے میں گندہ پانی کئی کئی فٹ جمع ہوتا ہے اور پھر بارش کے دوران موت کے کنوؤں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
شاہ فیصل کالونی بلاک 2 کے مکینوں نے روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹرکو بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملنے کے باوجود بروقت ریسکیوکا عملہ اگر پہنچ جاتا تو عباد کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ کراچی میں گٹر میں گرنے کا معاملہ ایک معمول کی بات ہے۔ گزشتہ سال 19 افراد گٹر اور نالوں میں گرکر ہلاک ہوئے تھے جس میں 9 کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال گڈاپ کے علاقے میں ڈپٹی میئر عبداﷲ مراد کے گھر کے قریب ایک بچہ گٹر میں گر کر زندگی کی بازی ہارگیا۔ کراچی میں بلدیاتی قوانین کے تحت سیوریج کا محکمہ کراچی واٹرکارپوریشن کے پاس ہے۔
گزشتہ برسوں تک یہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کہلاتا تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کو کارپوریشن میں تبدیل کیا مگرکارپوریشن بننے کے بعد بھی اس کی کارکردگی بہتر نہ ہوسکی۔ واٹر بورڈ کے چیئرمین منتخب میئر مرتضیٰ وہاب ہیں۔ شاہ فیصل ٹاؤن کے چیئرمین گوہر خٹک نے اس افسوس ناک حادثے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گٹر کے ڈھکن لگانے کی ذمے داری واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے میئر کراچی کی توجہ علاقے کی زبوں حالی کی طرف مبذول کرائی مگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی، یوں صورتحال مسلسل خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ گوہر خٹک نے یہ شکوہ بھی کیا کہ کے ایم سی ٹاؤنز کو کوئی فنڈز فراہم نہیں کرتی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ٹاؤن کے پاس فنڈ نہیں ہوتا اس بناء پر نہ تو گٹر لائنیں ٹھیک کرسکتے ہیں نہ سڑک پر ڈھکن ۔ انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
کراچی عجیب شہر ہے کہ ہیرونچی گٹر کے ڈھکن اور اوورہیڈ برج کا سریہ چوری کر کے آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں اور اچھے شہری کھلے گٹر پر درخت کی ٹہنی لگا کر یا کہیں سے بانس کا ڈنڈا لگا کر سڑک پر چلنے والوں کو خطرے کی اطلاع دیتے ہیں، یہ منظر بڑی بڑی سڑکوں پر روزانہ نظر آتا ہے۔
میئر صاحب نے گزشتہ سال یہ اعلان کیا کہ گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے افراد کے خلاف آپریشن ہوگا، چند افراد کی گرفتاریوں کی خبریں بھی شائع ہوئیں، مگر پھر مسئلہ داخلِ دفتر ہوگیا۔ ہیرونچی صرف گٹر کے ڈھکن ہی نہیں چراتے بلکہ سڑک کے کنارے لگی ہوئی گرل اور اوورہیڈ برج کا سریہ بھی لے جاتے ہیں۔ ہیرونچی یہ سامان کباڑیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ کباڑی ڈھکن اور گرل کو پھر سے فروخت کردیتے ہیں۔ لوہا پگھلا کر لوہے کی اشیاء بنانے والوں کو دے دیتے ہیں۔ پولیس والے باقاعدہ ہیرونچیوں اورکباڑیوں سے روزانہ کی بنیاد پر بھتہ وصول کرتے ہیں۔
ایک تھانے کے سپاہی نے جو اپنے ایس ایچ او کے احکامات کے تحت ہیرونچیوں،کباڑیوں، دکانداروں اور ٹھیلے والوں سے بھتہ وصول کرتا ہے، نے فخر سے بتایا کہ یہ رقم پولیس کے اعلیٰ افسران سے لے کر فیصلے کرنے والی اتھارٹی تک فراہم کی جاتی ہے۔ جدید جمہوری نظام میں نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس نظام میں کونسلر اور یونین کونسل کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
کونسلرکی ذمے داری پانی اور سیوریج کے نظام کی نگرانی، پیدائش اور اموات کے اندراج کے لیے یونین کونسل کے ریکارڈ کو مرتب کرکے علاقے میں صفائی ستھرائی کے معیارکو برقرار رکھنے اور علاقے میں رہنے والے ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانے سے لے کر ہر بچہ کو اسکول میں تعلیم دلانے کے نظام کی نگرانی ہوتی ہے، مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور دیگر قومی جماعتیں نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ ،وزراء اور میئرگٹرکی لائنوں اور سڑکوں کے احتجاج کو اپنے فرائض منصبی میں شامل کرتے ہیں۔
اس بناء پر بلدیاتی نظام کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔ پورے ملک میں صرف سندھ میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور میئر سے لے کرکونسلر کا ادارہ عوام کے ووٹوں سے قائم ہوا ہے، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت ٹاؤن اور یونین کونسل کو نہ تو اختیارات منتقل کرنا چاہتی ہے نہ ہی فنڈز دینے کو تیار ہے۔ اب کراچی کے سیوریج اور کوڑے کا مسئلہ عالمی میڈیا کے ایجنڈے میں شامل ہوا ہے۔ ایکسپریس کے رپورٹر سے شاہ فیصل کالونی کے ایک مکین نے شکایت کی کہ شادی ہال والے لاکھوں روپے کماتے ہیں مگر اپنے ہال کے سامنے گٹروں پر ڈھکن لگانے کے روادار نہیں ہیں۔
اب شہر کے اہم بازاروں مثلاً طارق روڈ، بہادر آباد، کے ڈی اے مارکیٹ، زیب النساء اسٹریٹ اور برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ کے دکانداروں کی روزانہ کی آمدنی ہزاروں سے لاکھوں روپے کے درمیان ہے مگر یہ اپنی دکان کے سامنے صفائی کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ یونین کونسل اور ٹاؤن کے پاس اختیارات ہونگے تو پھر یہ دکاندار اپنے علاقے کو صاف رکھنے پر مجبور ہوجائیں تو پھر کوئی بچہ یا بزرگ گٹر میں گر کر جان نہیں دے گا ۔
میئرکراچی نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بے بسی کا اقرار کیا ہے کہ وہ ڈھکن لگا سکتے ہیں مگر چوروں کو نہیں پکڑسکتے، یوں میئر کراچی جو حکومتِ سندھ کے ترجمان بھی ہیں، سندھ حکومت کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔