کہتے ہیں شخصیت کو فن سے اور فن کو شخصیت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ شخصیت کا پندار فن میں جھلکتا ہے اور فن کا پندار شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اعزاز احمد آذرکی شخصیت اس کے فن کی اور اس کی شخصیت کا مظہر ہے۔
محبت، مروت، اخلاص اور درد مندی سے پیش آنا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ وہ ایک منفرد شاعر، بے مثل ادیب، وراسٹائل کمپیئر، میزبان، محقق و ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔ آذر صاحب 25 دسمبر1942 کو بھارت کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اُردو)، ایم اے (پنجابی) اور ایم اے (سیاسیات) کے علاوہ ایجوکیشن اور قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔انھوں نے جب اپنے کیریئرکا آغاز ایک اسکول ٹیچر سے کیا تو بعد میں انھوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر شعبہ وکالت سے منسلک ہوگئے۔ مگر کچھ ماہ کے بعد وہ شعبہ وکالت کو بھی چھوڑنے پر مجبور اس لیے ہوئے کہ طاقتور کے مقابلے میں کمزور طبقے کے لوگوں کے ضمیروں سے کھیلنا کہاں کا انصاف ہے۔
اس کے بعد وہ غالبا1964 میں پاکستان ٹیلی وژن میں بطور اینکر شامل ہونے لگے اور بے شمار دستاویزی فلمیں لکھنے کے علاوہ ڈرامہ سیریز لکھنے لگے۔ ان کے یادگار پروگراموں میں ’’ شب خون‘‘ شامل ہے جسے ضیا اللہ حق کے دور میں جمہوری تختہ اُلٹانے پرگیارہ سال حکومت کرنے کے دوران ترتیب دیا گیا۔1974 میں وزارت اطلاعات و نشریات کے محکمے پاکستان نیشنل سینٹر میں بطور ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے۔
بعدازاں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ پاکستان نیشنل سینٹر سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے 2010 میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور سینٹر سے نشر ہونے والے پروگرام ’’ کتاب‘‘ کے بطور میزبان کتاب دوستی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے کتابوں پر تبصرہ کی صورت میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے، جب کہ ’’ سوچ وچار‘‘ پی ٹی وی کا ایک ایسا مقبول پروگرام تھا جو پنجابی زبان پر مبنی پنجاب کی ادب و ثقافت اور معاشرے کے دیگر ایشوز پر مبنی تھا۔
اس پروگرام کے میزبان بھی اعزاز احمد آذر اور ڈاکٹر محمود قریشی ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں پروگرامز کے پروڈیوسر آذر صاحب کے چھوٹے بھائی افتخار مجاز ہوا کرتے تھے۔
آذر صاحب فنونِ لطیفہ کی مستند اور محدود اصناف سے بھی کہیں بڑھ کر فن کی دنیا کے غواض اور شناور تھے۔ 1988میں شایع ہونے والے ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’دھیان کی سیڑھیاں‘‘ ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر اے بی اشرف نے لکھا جو اُس وقت بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سربراہ شعبہ اُردو سے منسلک تھے، وہ اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’ آذر ہمارے معاشرے کے منافقانہ رویوں اور سماجی رابطوں کا چشم دید گواہ ہے اور اس نے اپنی غزل میں ان کی گواہی دی ہے، اس کی گواہی معتبر ہے کہ وہ باشعور فنکار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہاں کوئی کسی کا دکھ نہیں بانٹتا۔ کوئی کسی کا درد محسوس نہیں کرتا یا دوسروں کے لیے اپنی آنکھ نم نہیں کرتا۔
اس لیے اس کی غزل میں فراق کا درد بھی ہے اور ملن کی چاہت بھی۔ یہ دونوں گھمبیر جذبے مل کر آذر کی غزل کی غنائیت اور اس کے لہجے کو مٹھاس عطا کرتے ہیں۔‘‘
آذر صاحب کے اسی شعری مجموعہ ’’دھیان کی سیڑھیاں‘‘ کے فلایپ کے طور پر عرش صدیقی رقم دراز ہے کہ ’’ اعزاز احمد آذر وسیع تر معنوں میں محبت کا شاعر ہے، اسی لیے اس کا لہجہ، اس کا اسلوب، اس کا تکلم اپنے اندر بے پناہ معنوی اور جمالیاتی کشش رکھتا ہے۔‘‘
یہ بات حقیقی معنوں میں سو فیصد درست ہے کہ آذر صاحب محبت کا شاعر ہے اور میرے خیال میں دنیا میں ایسا کوئی شاعر نہیں جو محبت کے بنا مکمل ہو۔ بلکہ میں انھیں محبت کا شاعر نہیں بقول جان کاشمیری کہ ’’گویا اعزاز احمد آذر یہاں فکری سطح پر احساسِ جدائی کو محسوس کر کے تخلیقی سطح پر اس کا اظہار کر رہا ہے نتیجتاً میرے اس خیال کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ اعزاز احمد آذر جدائی سے زیادہ احساسِ جدائی کا شاعر ہے۔‘‘ اس لیے وہ خود سے بے نیاز ہو کر دوسروں کو سوچنے کا یوں مشورہ بھی دیتے ہیں۔
کیا گزرتی ہے بھری دنیا میں تنہا شخص پر
ایک لمحے کے لیے خود سے بچھڑ کر سوچنا
آذر صاحب کی غزل جدید ہونے کے باوجود روایت سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ہاں ایسے اشعار کثرت سے پڑھنے کو ملتے ہیں جو جدید تر لبوں لہجے کے اعتبار سے حقیقی حقائق کے ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر حقیقت کا روپ دھارے موجودہ دورکی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔
چھوڑ بھی دے ضد آذرؔ مرحلے کٹھن ہیں یہ
اُس طرف زمانہ ہے تو اِدھر اکیلا ہے
آذرؔ یہ شہر اُجڑے ہوئے عمر ہو گئی
چھوڑو کہ دل نہ بستا دکھائی بھی دے کبھی
…٭…
وہ جس نے مجھ کو دیا ظلمتوں کا اندھا سفر
سنا ہے چاند بھی اس کے ہی گھر میں اُترا تھا
اُردو کے علاوہ پنجابی میں بھی انھوں نے خوب شاعری کی۔ ان کی تصانیف میں دھیان کی سیڑھیاں (نظمیں، غزلیں)، محبت شعلہ تھی (نظمیں اور گیت)، تتلی، پھول اور چاند (بچوں کے لیے نظمیں اور گیت)، دھوپ کا گلابی رنگ ،’’ نمایندہ غزلیں (انتخاب)‘‘ و دیگر شامل ہیں، مگر ان کی سب سے زیادہ مقبول ہونے والی نظم ’’ شہید دی بھین‘‘ بہت مقبول ہوئی ۔
اس کے علاوہ اُردو کی ایک اور نظم ’’ فرض کرو‘‘ جو ان کی مقبولیت کی پہچان بن گئی۔آذر صاحب کی شاعری میں کیف و مستی، موسیقیت، رنگینی اور احساس کی کیفیت پائی جاتی ہے،کیونکہ وہ لفظوں کو موتی لوحِ قلم سے صفحہ قرطاس پر سجانے والے ایک محبت پرورآدمی تھے۔
ان کی وفات 15 مئی 2015 کو ہوئی ۔ ان کے بارے میں بڑے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی کم پیش پانچ دھائیاں کار زارِ ادب میں کامیابی سے گزاریں۔ ان کی چھٹی برسی کے موقعے پر دل آج بھی غم زدہ اور آنکھیں نم دیدہ ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں اپنے حضور اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم جیسے ہنر مندوں کو مزید زورِ قلم عطا فرمائے تاکہ ہم آذر صاحب جیسے ادبی ستاروں کی یاد میں اپنی یادوں کی خوشبو سے آنے والی فضاؤں کو معطر رکھ سکیں،آخر میں ان کا ہی ایک شعر کہتا ہوا اجازت چاہوں گا۔
موت برحق ہے مگر مرنے کا بھی انداز ہے
موت جس پر لوگ مر جائیں، بڑا اعزاز ہے