کیا ٹرمپ بائیڈن سے بہتر ثابت ہوں گے؟

غزہ میں ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے مگر افسوس کہ بائیڈن نیتن یاہو کو نہ روک سکے


عثمان دموہی January 12, 2025

ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے بلاشبہ بائیڈن کو سبق آموز شکست دی ہے مگر اس شکست کی وجہ بائیڈن کی بحیثیت امریکی صدر اندرونی غلطیاں اور عالمی امور میں ناکامیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی بائیڈن کی ناکامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، سب سے اول تو وہ غزہ کا مسئلہ حل کرانے میں ناکام رہے مگر کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہی نہیں تھے۔

بائیڈن کا دور اب ختم ہونے والا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے مگر افسوس کہ بائیڈن نیتن یاہو کو نہ روک سکے بلکہ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ وہ اسے روکنا چاہتے ہی نہیں تھے، اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل جاتا ہے کہ جب بھی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بند کرانے کے لیے کسی ملک کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی تو امریکا کی جانب سے اس کے خلاف ویٹو استعمال کیا گیا۔

یہ سب بائیڈن کی فطرت میں چھپی عیاری کا پتا دیتا ہے کہ ایک طرف وہ جنگ کے خلاف تھے تو دوسری طرف وہ اسرائیلی بربریت کو بڑھاوا دیے جا رہے تھے شاید ان کی اس مکاری کا صلہ قدرت نے انھیں یہ دیا کہ وہ امریکی صدارت کے لیے دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل ثابت نہیں ہو سکے۔

اب ٹرمپ کا دور شروع ہو گا تو پتا چلے گا کہ ان کی غزہ کے بارے میں کیا پالیسی ہے، ویسے انھوں نے نیتن یاہو کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی غزہ پر حملے بند کردے اور جنگ بندی کا معاہدہ کر لے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ٹرمپ بائیڈن کی طرح فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں یا پھر انھیں نیتن یاہو کی بربریت سے بچاتے ہیں۔

ابھی انھوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا ہے مگر اس سے پہلے ہی بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور پاناما وگرین لینڈ کو خریدنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔

کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ لگتا ہے وہ اس دفعہ اپنی جیت سے اتنے خوش ہیں کہ آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو ہی بہتر ہوگا، اس لیے کہ بائیڈن نے اپنے چار سالہ دور میں امریکی امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے دوستوں کو دشمن بنایا ہے اور یوکرین جیسے محاذ پر ذلت اٹھائی ہے، اس کے علاوہ بھی دیگر مسائل ہیں جن پر توجہ مرکوزکرنا ضروری ہے۔

ٹرمپ کے اپنے دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے امریکا کو تو نقصان پہنچے گا ہی ساتھ ہی ٹرمپ کی صلاحیت پر بھی شک کیا جائے گا۔ ویسے بھی وہ 80 سال کے ہو چکے ہیں چنانچہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنے ملکی مسائل کی جانب توجہ دیں اور پھر عالمی مسائل کی جانب مائل ہوں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت عالمی حالات امریکی مفاد کے خلاف ہیں۔ چین اور روس عالمی سطح پر اپنا مقام بنا رہے ہیں جب کہ امریکی اجارہ داری نے پوری عالمی برادری کو ناراض کردیا ہے۔ خود یورپی ممالک جو کبھی امریکا کا دم بھرتے تھے، اب امریکا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

یورپ کی سیکیورٹی کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے مگر اب یورپی ممالک خود اپنی حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں اور امریکن ڈکٹیشن پر چلتے ہوئے جن ممالک سے دشمنی کی فضا قائم تھی، ان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔

ٹرمپ پہلے صدر ہوں گے جنھوں نے یورپ سے اس کی حفاظت کے عوض معاوضہ طلب کیا ہے۔ یہ امریکی رویہ سراسر یورپی ممالک کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ امریکی منفی رویے کی وجہ سے ہی مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو پہلے روس سے ٹوٹ کر مغربی ممالک کے حلیف بن گئے تھے اور بعد میں نیٹو کے ممبر بھی بن گئے تھے اب روس کی طرف واپس جا رہے ہیں وہ پیوتن کی پالیسیوں کو بھی کھلم کھلا سراہ رہے ہیں۔

دراصل روس کی پالیسی امریکا کی طرح دنیا پر حکمرانی کرنے یا اپنی طاقت کے بل پر کمزور ممالک پر قبضہ کرنے والی نہیں ہے۔ روس اب پہلے کی طرح صرف اپنے حلیفوں تک تعلقات محدود رکھنے کی پالیسی کو ترک کر کے تمام ممالک کے دکھ درد میں شریک ہو رہا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکا کے غریب ممالک میں اب وہ بہت مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغربی ممالک سے ہٹ کر وہ ’’ جیو اور جینے دو ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

روس کی اب برصغیر کے لیے خارجہ پالیسی میں بھی بہت تغیر آ چکا ہے، پہلے وہ صرف بھارت کا دم بھرتا تھا مگر اب وہ پاکستان سے بھی اچھے تعلقات قائم کر چکا ہے۔ کشمیر کے بارے میں بھی اب اس کی پالیسی پہلے کی طرح بھارت نواز نہیں رہی ہے۔

بھارت روس کو اب بدلے ہوئے حالات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسے پہلے کی طرح اپنا قبلہ و کعبہ مانتا ہے مگر اس کی پالیسی سراسر دوغلی ہے۔ وہ مغربی ممالک سے بھی فائدہ اٹھانے کے لیے دوستی کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ اس کی موقع شناس خارجہ پالیسی کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک دونوں ہی اسے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکا اور کینیڈا میں جب سے بھارت نے سکھوں کے رہنماؤں کو قتل کرانے کی غلطی کی ہے، اس سے باز پرس کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا اورکینیڈا دونوں چاہتے ہیں کہ بھارت اپنے جرم کا اعتراف کر لے مگر وہ اپنے جرم کو قبول نہیں کر پا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی دہشت گردی بے نقاب ہو چکی ہے۔

وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے۔ امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں بھارت کے امریکا کینیڈا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں ’’را‘‘ کے ذریعے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کی رپورٹ شایع کی ہے۔

اب حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عزت خاک میں مل چکی ہے اور یہ صورت حال بی جے پی حکومت کے لیے ڈوب مرنے والی ہے کیونکہ وہ تو بھارت کو ایک مہان دیش بنانا چاہتے ہیں مگر وہ تو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دنیا بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔ مودی نے لگتا ہے اب ٹرمپ کی آشیرباد سے بھارت کی ساکھ کو بہتر بنانے کی امید لگا رکھی ہے مگر اب تو وہ بھی بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں