’’بے ہوش ہونے سے پہلے تین دفعہ کلمہ پڑھا۔۔۔!‘‘

بیماری سے صحت یابی تک، امید اور آزمائش کی ایک سچی کہانی


نجم السحر January 13, 2025

اُفتاد اور بن بلائے مہمان کی فطرت کچھ ایک جیسی ہوتی ہے، کسی بھی دن کہیں سے دروازے پہ آن دھمکتے ہیں اور پھر بے چارے میزبان کے ہاتھ پاؤں پھولے جاتے ہیں۔

جن دنوں اس اُفتاد نے ہماری زندگی کا دروازہ کھٹکھٹایا اُن دنوں زندگی کچھ یوں بھی ریاضی کے پرچے کی طرح تھی، سوال، در سوال، در سوال! کبھی فارمولا صحیح، تو جواب غلط اور کبھی فارمولا غلط ہے تو جواب درست۔۔۔! زندگی کے کچھ ذاتی مسائل اور والد صاحب کی طبیعت نے بدحواس کر رکھا تھا۔ بے ساختہ محسن نقوی کا ایک شعر یاد آیا؎

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رُو کر کے!

ہوا کچھ یوں کہ ایک روز ہمیں جسم میں معمولی تبدیلی کا احساس ہوااور بائیں جانب سینے میں نیچے کی طرف ایک چھوٹی سی گلٹی محسوس ہوئی۔ شروع میں کچھ دن ہم اس سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے رہے، کیوں کہ اس وقت ہمارے لیے ہماری صحت سے کہیں زیادہ ضروری تھا ’پاپا‘ کو ’غذائی نالی‘ (این جی) کی اذیت سے نجات دلوا کر Pac tube لگوانا۔ البتہ امی کو ہلکے سے اس گلٹی کے بارے میں بتایا، جسے سن کے وہ بہت پریشان ہو گئیں اور انھوں نے فوری طور پہ ہمیں ’الٹرا ساؤنڈ‘ کروانے کے لیے کہا، گھر کے قریبی اسپتال سے جب الٹراساؤنڈ کروایا تو ڈاکٹر نے سینے میں ایک چھوٹی سی سسٹ (cyst) ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ بہت چھوٹی سی ’سسٹ‘ ہے زیادہ پریشان ہونے والی بات نہیں ہم مطمئن ہو کے گھر واپس آگئے اور اطمینان سے اپنے پاپا کا ٹریٹمنٹ کروایا، لیکن اس دوران ہی یہ محسوس ہونا شروع ہوا، جیسے بائیں طرف کچھ تو ہے، جو صحیح نہیں ہے اس بار تذکرہ ایک دوست سے کیا، تو اس نے سنتے ہی سر پکڑ لیا، بہت سختی سے دوبارہ الٹراساؤنڈ کروانے کے لیے کہا۔ ہم اس وقت بھی اسے قبول کرنے کی کیفیت میں نہ تھے، مگر 20 دن کے بعد ہونے والے اس الٹراساؤنڈ کے نتیجے کو دیکھ کر ڈاکٹر نے ہمیں ٹھیک ٹھاک ڈرا دیا اور فوری طور پہ ’میموگرافی‘ کا مشورہ دیا۔

پچھلے برس یہ جنوری ہی کا مہینا تھا، ہم نے اپنے اسکول میں پرنسپل کو اطلاع دی، تاکہ منجیمنٹ دماغی طور پر ہر چیز کے لیے تیار رہے اور متبادل ٹیچر کا بندوبست ان کے پاس موجود رہے۔ کہیں نہ کہیں دل میں ہم خود کو یہ کہہ کے تسلیاں دے رہے تھے کہ ان شا اللہ ہمیں کینسر جیسا کوئی مرض نہیں ہوگا، کیوں کہ ہم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنی صحت، ورزش اور بہترین خورا عک کا بہت اہتمام کیا ہے اور الحمدللہ کبھی نزلے کھانسی سے زیادہ کوئی بیماری نہیں ہوئی۔ مگر ’میموگرافی‘ کی رپورٹ سے بائیں جانب سینے میں دو جگہ اس موذی برض کے خدشات کا انکشاف کیا اور فوری طور پہ ہمیں ’بائیوپسی‘ کے لیے کہا گیا اور دو مہینے میں پہلی بار ہم نے گھبراہٹ محسوس کی۔ ایک کے بعد ایک اچھے اسپتال کے oncologist سے مشورہ لیا کہیں نہ کہیں دل میں ایک بہت موھم سی امید باقی تھی کہ کوئی oncologist یہ کہہ دے کہ ہمیں ’بائیوپسی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہر وہ شخص جو اس مرض کے بارے میں ذرا سا بھی جانتا تھا۔ اس سے ہمیں جلد سے جلد ’بائیوپسی‘ ہی کروانے کا مشورہ دیا۔

بھلے سے کوئی کچھ بھی کہے کہ یہ مرض قابل علاج ہے اور آج کل تو اتنے اچھے علاج آگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر آپ کو یہ بتاتا ہے نا کہ آپ کو دوسری اسٹیج کا ’بریسٹ کینسر‘ ہے، تو ایک لمحے کے لیے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔ بہت حوصلے کے ساتھ امی کو فون کیا اور کہا ’ماں پریشان مت ہوئیے گا، ڈاکٹر نے ابھی دوسری اسٹیج کا بریسٹ کینسر تشخیص کیا ہے، کچھ ٹیسٹ لکھے ہیں، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کینسر ہمارے جسم میں کہاں تک پھیلا ہوا ہے، گھر واپس آتے آتے تھوڑا وقت لگ جائے گا۔۔۔‘‘

دوسری طرف سے امی نے بہت ہی حوصلے سے کہا ’’ہاں بیٹا، تم پریشان مت ہونا، ان شا اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا!‘‘ یہ اور بات ہے کہ بعد میں بچوں نے بتایا کہ نَنّا (نانی) بہت پھوٹ پھوٹ کی روئیں فون بند کرنے کے بعد۔ یہ خبر ہمارے خاندان پر کسی بم کی طرح گری، محلے میں اسکول کے ساتھیوںکو یہ پتا چلا، ہر طرف ایک ہل چل مچ گئی۔

ہر کوئی سوال کر رہا تھا ’سحر۔۔۔! آپ کو بالکل کچھ محسوس نہیں ہوا۔۔۔؟ سحر! آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلا۔۔۔؟ کیا آپ کو درد ہوا تھا۔۔۔؟ وغیرہ وغیرہ اور ہم نے سب کو صرف ایک جواب دیا اس موذی مرض کا پتا ہی تو نہیں چلتا اور پہلی دفعہ احساس ہوا کہ درد تو دوست ہوتا ہے۔ درد ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ توجہ کہاں کرنی ہے اور علاج کہاں کرنا ہے۔ کچھ ساتھیوں نے تسلی بھی دی تو یہ کہا کہ ’’پریشان مت ہوئیے، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، ڈاکٹر آپ کا یہ حصہ کاٹ دیں گے، مگر زندگی سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں ہے!‘‘ اور یہ سن کے ہم سوچتے تھے ’’کیا واقعی؟ یہ کوئی اتنی معمولی سی بات ہے۔۔۔؟ ایک عورت کے لیے اس کے جسم کے اس حصے کی کیا اہمیت ہوتی ہے کیا لوگ اس سے اَن جان ہیں؟

ماں کی آنکھوں میں خوف دیکھا، ایک نظر بستر پر پڑے ہوئے باپ کو دیکھا، تو خود پہ ہنسی آگئی کہ ’سحر بی بی! نہ آپ حوصلہ ہار سکتی ہیں، نہ آپ مر سکتی ہیں اور رونے پیٹنے کا تو سوچیے گا بھی مت! گھر میں خاندان والوں کا تانتا بن گیا۔ جو ملک سے باہر تھے، وہ کال پہ تسلیاں دینے لگے۔۔۔ اکلوتا بھائی چھٹیاں لے کے پاکستان آنے کو تیار۔۔۔ بڑی مشکل سے اُسے روکا۔ نہیںمعلوم کون لوگ ہوتے ہیں، جن کی پھوپھیاں پھاپھا کٹنی، خالہ میسنی ، ماموں حق تلف اور چچا کم ظرف ہوتے ہیں۔۔۔! یہاں تو یہ عالَم کہ پھوپھو کی ہچکی بن گئی روتے روتے، چچا نے خبر سنی تو کپکپا کر بیٹھ گئے، خالہ، ماموں ہر دوسرے دن حوصلہ دینے کو موجود۔ سب کے لیے اس وقت ہم بہت بہادر بیٹی تھے، لیکن سچ تو یہ تھا دنیا کے سامنے بہت ہمت والی عورت اندر کئی کئی بار ٹوٹی اور کئی بار خود کو سنبھالا!

14 مارچ کو لیاقت اسپتال کے ’پرائیویٹ وارڈ‘ میں داخل ہوئے، اگلے دن ہماری سرجری ہونا تھی، ڈاکٹر نے پہلے صرف گلٹی اور اطراف میں پھیلا ہوا کینسر ختم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہمیں یہ بتایا جا چکا تھا کہ اگر اس کے بعد ہونے والی بائیوپسی کے ٹیسٹ میں دوبارہ کینسر کی جراثیم دکھے تو یہی سرجری دوبارہ ہوگی۔ وہ رات قیامت کی رات تھی۔۔۔! دل کیا، ساتھ موجود اپنے میاں سے لپٹ کر خوب روئے، مگر ہمارے مسٹر پرفیکٹ اس ڈیپارٹمنٹ میں بالکل زیرو ہیں۔

وہ پہلے ہی بہت صاف لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ ’’یار ٹریٹمنٹ سے لے کر فائنانس تک ہر چیز میں بہت اچھے سے دیکھ سکتا ہوں، اس سے زیادہ کہ مجھ سے کوئی توقع مت رکھنا۔۔۔!‘‘ دوسرے دن آپریشن تھیٹر سے باہر بے آواز رو رہے تھے! سرجن صاحبہ نے ہمیں دیکھا، تو تسلی دی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے بے ہوش ہونے سے پہلے ہم نے تین دفعہ کلمہ پڑھا تھا۔۔۔! اور یہ مرحلہ بہت اچھی طرح سے طے ہو گیا۔ ہمارے ڈاکٹروں نے کام یابی سے یہ مرحلہ طے کرلیا اور جسم کے کسی حصے کو الگ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

اس کے بعد ’کیموتھراپی‘ کا مرحلہ تھا۔ کہنے کو تو یہ ایک معمولی سا ماجرا ہے، جو ڈیڑھ سے ڈھائی گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے، مگر یہ انسان کے جسم میں جا کر جو حشر کرتا ہے، اس اذیت کا بیان کرنا مشکل ہے۔ منہ کا ذائقہ ختم، پیٹ خراب، منہ میں چھالے اور الٹیاں۔ سفید خلیوں کو بچانے کے لیے پیٹ میں ہر کیمو کے بعد سات دن تک لگاتار انجیکشن لگتے تھے۔ راتیں روز محشر کی طرح طویل اور اذیت ناک ہو گئی تھیں۔ اور تب ہمیں فراق کے اس شعر کے معنی سمجھ آئے۔۔۔

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

روز گُچھوں کے حساب سے سر کے بال جھڑنے لگے۔۔۔ جسے دیکھ کر امی پھوٹ پھوٹ کر روتی تھیں اور ہم ہنستے تھے۔۔۔! پہلی کیمو کے چودھویں روز سر کے کافی سارے بال ایک جتھے کی طرح اپس میں جڑ گئے، انھیں سُلجھانے کی کوشش کی تو سارا سر بالوں سے صاف ہو گیا...! ہم یہ دیکھ کر خاموش ہو گئے، ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈپریشن بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ مزاج میں چڑچڑا پن آگیا تھا۔ کبھی خود پر ترس آتا تھا، کبھی دنیا والوں پر غصہ! کبھی لوگوں کو صحت مند دیکھ کر ان کی صحت سے حسد بھی ہونے لگتا تھا۔۔۔ ڈپریشن کے دنوں میں سوچا کرتے تھے کہ ’’سب کے لیے سب کچھ تو ٹھیک ہے، کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن ہے، مگر ایک ہم ہیں، یہاں کس عذاب میں ہیں۔۔۔!!‘‘

ایسے میں ایک دوست تھا، جس نے بڑا ساتھ دیا، وہ ایک واحد شخصیت تھا، جس کے سامنے ہم پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے، اپنا چڑچڑا پن، اپنی ڈپریشن، اپنی تکلیف اور اذیت، ہر چیز تفصیل سے بیان کرتے تھے، وہ ہمیں برداشت کرتا تھا، اس نے ہمارے بالوں کے بغیر سر کو دیکھا تو کہا کہ ’واؤ! سحر تم تو بالکل ڈیمی مور جیسی لگ رہی ہو! بہت خوب صورت۔۔۔!‘ اور ہم ایک دفعہ پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے تھے۔

کیمو تھراپی کا ہر سیشن اذیت کی ایک داستان تھا، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے جسم میں انگارے بھر دیے ہیں، بیٹھے بیٹھے حالت خراب ہونے لگتی تھی، پسینے چھوٹنے لگتے تھے۔ دو مہینے کے بعد کی 15 دن کے بہ جائے ایک ہفتے کے وقفے سے ہونے لگی، تو اینگزائٹی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے۔ ڈرپ کے دوران ہی بے چین ہو کے چیخیں مارنے لگتے تھے، تب ڈاکٹر نے ہمیں نیند کی دوائی دی، جس سے کافی افاقہ ہوا۔ خود کو اس ’صدمے‘ سے نکالنے کے لیے دوبارہ اسکول جانا شروع کردیا۔

ہم روزانہ کاجل پینسل سے اپنی بھویں بنایا کرتے۔۔۔ اسکارف پہننا شروع کر دیا۔۔۔ ساری خود اعتمادی کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ اگر ہمارے ساتھ سب سے اچھا یہ ہوا کہ ارد گرد سب لوگوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا اور دوبارہ زندگی کی طرف آنے میں بے حد معاونت کی۔

اس کے بعد ایک آخری مرحلہ ’ریڈی ایشن‘ کا تھا، ہمیں 20 دن ریڈییشن بھی کروانی پڑی، ریڈیشن کا مرحلہ تو پتا بھی نہیں چلا، کیسے گزر گیا۔ اور وہ بھیانک خواب، جو پچھلے سال دسمبر میں شروع ہوا تھا الحمدللہ اس سال دسمبر میں ختم ہوگیا۔ آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ یہ بیماری کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ اس حوالے سے بڑوں یا خاندان میں اور کوئی متاثر رہا ہو، یا آپ کو کبھی کوئی بیماری نہیں رہی یا آپ بہت صحت مند ہیں۔ تو اپ کو یہ بیماری نہیں ہوگی اس لیے اپنا اور اپنے ارد گرد رہنے والی خواتین کا بہت خیال رکھیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں