ایک طرف حکومت نے اتوار والے دن جیل کھول کر تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی بانی تحریک انصاف سے ملاقات کروا دی تا کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل میں موجود تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
کہاں معمول کے دنوں میں ملاقات نہیں کروائی جا رہی تھی۔ کہاں یہ کہا جا رہا تھا کہ جیل مینوئل اس قسم کی ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسری طرف چھٹی والے دن جیل کھول کر ملاقات کروا دی گئی۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ملاقات معمول کے دن کیوں نہیں کروائی جا سکتی تھی۔
ایک دن بعد پیر کوکیوں نہیں کروائی جاسکتی تھی۔ ایک دن پہلے کیوں نہیں کروائی جا سکتی تھی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایک دن بعد کیونکہ القادر ٹرسٹ کیس میں احتساب عدالت نے سزا سنانی تھی۔ اس لیے سزا سے پہلے ملاقات کروائی گئی ہے۔ مگر میری نظر میں یہ کمزور دلیل ہے۔ سزا کا مذاکرات پر جو اثر ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سزا سے ایک دن پہلے ملاقات کروانے سے حکومت کو کوئی بڑا ریلیف مل جانا تھا۔
بہر حال اس ملاقات کے بعد بھی مذاکرات کے حوالے سے کوئی پر امید بات سامنے نہیں آئی۔ 31جنوری کی ڈیڈ لائن وہیں موجود ہے۔ اور جیوڈیشل کمیشن کے معاملہ پر بھی کوئی لچک نہیں۔ ان دونوں کی موجودگی میں مجھے مذاکرات کی کامیابی نظر نہیں آرہی۔ مذ اکرات کا تیسرا دور ہو تو جائے گا لیکن مجھے اس میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
حکومت بھی لچک نہیں دکھائے گی اور تحریک انصاف کے رویہ میں بھی لچک نہیں۔ بے شک تحریک انصاف کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ سزا کے اعلان کے باوجود مذ اکرات جا ری رکھے جائیں گے۔ لیکن سزا کا مذا کرات پر اثر ضرور ہوگا۔ میری رائے میں سزا کے بعد رویے سخت ہو جائیں گے۔
القادر ٹرسٹ میں بانی تحریک انصاف اور ان کی بیگم کو سزائیں نہیں سنائی جا سکیں۔بانی تحریک انصاف عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ وکلا بھی عدالت میں نہیں آئے۔ جج صاحب نے 17جنوری کی تاریخ دوبارہ فیصلے کے لیے ڈال دی ہے۔ کیا 17جنوری کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اگر چار دن بعد بھی بانی تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی اور وکیل نہ آئے تو کیا ہوگا۔ ایک تاریخ اور ڈال دی جائے گی۔ لیکن بہر حال فیصلہ سنایا تو جائے گا۔ آپ کتنے دن اس کو تاخیر کا شکار کر سکتے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف روز مطالبہ کر رہی تھی کہ فیصلہ سنایا جائے۔ دوسری طرف عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔ میڈیا میں مطالبہ کرتے ہیں اور عدالت میں فرار اختیار کرتے ہیں۔
حکومت نے اب تک بانی تحریک انصاف کے خلاف جتنے بھی کیس بنائے یہ سب سے مضبوط کیس ہے۔ پہلے کیس بھی ٹھیک تھے لیکن اس میں تو بڑی کرپشن ہوئی ہے۔ عدت کیس کو ہم ذاتی معاملہ کہہ سکتے ہیں اور جیولری سیٹ والے کیس پر بھی سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔
جج صاحب کے مطابق اگر سیٹ پہلے توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا گیا اور بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ سیٹ سیدھا گھر لے گئی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ جب کہ نیب کا موقف ہے کہ یہ کرپشن ہے۔ پہلے توشہ خانہ میں آئے گا۔ وہاں سے سرکاری طو رپر اس کی قیمت کا تعین ہوگا۔ پھر پیسے قومی خزانہ میں اس حساب سے جمع ہونگے پھر وہ لے سکتے ہیں۔ سیدھا گھر جانے سے صحیح قیمت کا تعین نہیں ہو سکا۔ بہر حال اسلام آباد کی عدالت کے مطابق سیدھا گھر لیجانا کوئی جرم نہیں۔ میری رائے بھی یہی ہے کہ سیدھا گھر لے جانا جرم ہونا چاہیے۔
اسی طرح القادر ٹرسٹ میں بھی یہی دلیل تھی کہ زمین ٹرسٹ کو دی گئی ہے بانی تحریک انصاف نے خود نہیں لی۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرسٹ کے ٹرسٹی بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ ہیں۔ جب ٹرسٹ کے ٹرسٹی آپ ہیں تو زمین آپ کو ہی ملی۔ ایسے تو سب رشوت کا مال ٹرسٹ کے نام پر لینا شروع کر دیں۔ پلاٹ رشوت میں ٹرسٹ کے نام پر لے لیں، رقم ٹرسٹ کے نام پر لے لیں، کسی بھی قسم کا مفاد ٹرسٹ کے نام پر لینے سے وہ جائز نہیں ہوجاتا، رشوت رشوت ہی رہتی ہے۔
ٹرسٹ کے لیے رشوت اور ناجائز مراعات لینا جائز نہیں ہیں۔ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ ٹرسٹ کو ملنے والی رشوت جائز ہوگی۔ ٹرسٹی اس رشو ت کو قبول کر سکتے ہیں۔ اس لیے مجھے پہلے دن سے ٹرسٹ والی بات میں کوئی قانونی وزن نہیں لگتا تھا۔ اس لیے مجھے سزا کا یقین تھا۔ ٹرسٹ کوئی قانون سے مبرا چیز نہیں۔ روحانیت کی تعلیم دینے سے بھی کوئی جرم ختم نہیں ہو جاتا۔ جہاں تک فیصلہ سنانے میں تاخیر کی وجہ ہے۔ ایک طرف مذاکرات چل رہے تھے دوسری طرف فیصلہ میں تاخیر ہو رہی تھی۔ اس لیے عوامی رائے یہی بن رہی تھی کہ فیصلہ میں تاخیر مذاکرات کے تناظر میں ہو رہی ہے۔
کہانیاں بن رہی ہیں کہ بیک چینل مذاکرات ہو رہے ہیں، اصل مذاکرات بیک چینل ہو رہے ہیں۔ جب وہاں کوئی بات طے ہو جائے گی تو سامنے والے مذاکرات میں بھی کامیابی نظر آنے لگے گی۔ اس لیے فیصلہ میں تاخیر ہو رہی ہے۔ گو کہ میں اس سے متفق نہیں تھا۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ فیصلہ میں تاخیر کا کسی بھی قسم کا تعلق مذاکرات سے تھا۔ نہ ہی کوئی بیک چینل مذاکرات فیصلہ میں تاخیر کا باعث تھے۔ فیصلہ بھی آجائے گا اور میں سمجھتا ہوں مذاکرات بھی ناکام ہو جائیں گے۔ ہم یہ بھی کہیں گے کہ بیک چینل مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف مزاکرات کی ناکامی کا منظر نامہ ہے۔ دوسری طرف سز اکا منظر نامہ ہے۔ دونوں اکٹھے مل کر پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر کیا اثر ڈالیں گے۔ یہ دونوں صورتحال پاکستان تحریک انصاف کے لیے خوش آیند نہیں ہیں۔کیا اس صورتحال سے تحریک انصاف دباؤ میں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف ایک طرف مذاکرات سے ناکامی اور دوسری طرف سزا سے دباؤ میں آئے گی۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ وہ اس دباؤ سے نکلنے کے لیے کیا کر سکتی ہے۔کیا دوبارہ سڑکیں گرم کی جائیں گی۔ کیا ہم دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دیکھیں گے۔ کیا پھر اسلام آباد پر چڑھائی ہو گی۔
کیا اس بار اسلام آباد پر چڑھائی کے ساتھ بیرونی دباؤ کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ کیا تمام تر انحصار ٹرمپ پر کیا جائے گا۔ کیا امریکی دباؤ سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر سوال یہ ہے کہ یہ حکمت عملی کتنی کامیاب ہو گی۔ کیا ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کے لیے اتنا دباؤ ڈالیں گے کہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز جھک جائیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے جیسے پہلے تمام پلان ناکام ہوئے ہیں۔
امریکی پلان بھی ناکام ہو جائے گا۔ لیکن جب تک مکمل ناکام نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف اوربانی پی ٹی آئی اس پر مکمل کھیلنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اس کی ناکامی کے بعد کیا ہوگا۔ کیا اس کے بعد سیاسی استحکام آجائے گا۔ کیا اس کے بعد پاکستان کے معاملات پاکستان میں حل ہو جائیں گے۔ بہرحال مجھے ابھی تناؤ بڑھتا نظر آرہا ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔