دہشت گردی کی ہماری سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے، یہ جنگ جاری ہے اور اہم اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار آرمی چیف سید عاصم منیر نے دورہ پشاور کے دوران کیا۔
دوسری جانب خیبر پختون خوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے آرمی چیف سے ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت پر واضح موقف اپناتے ہوئے دہشت گرد گروپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف ایک متحد محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
بلاشبہ متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیہ اب وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے کیونکہ ہم گزری دو دہائیوں سے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری سیکیورٹیز ایجنسیاں فرنٹ اور بیک لائن پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہیں، اس ناسور کی بیخ کنی کے لیے قوم اور سیاسی و مذہبی قیادتکو بھی متحد ہونا پڑے گا۔ درحقیقت دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے درمیان موجود ہیں۔
پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحہ کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظرِ عام پر آئے ہیں، یہ بات سب پر عیاں ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔
یورو ایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے غیر ملکی ساخت کا اسلحہ بھی استعمال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج انخلا کے وقت افغانستان کی نیشنل آرمی کے پاس بڑی تعداد میں امریکی ہتھیار موجود تھے۔
امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں گزشتہ 2 برس کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔
آج ہم دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ فراہم کر دی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے میں کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی طالبان کی حمایت کرنے والی افغان پالیسی بنی ہے، طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر منایا۔ ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے جنگی، سیاسی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں۔
اس لیے طالبان حکومت نے پاکستان کو کوئی مدد دینے کے بجائے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کی اس وقت کی حکومت کے امن مذاکرات نے بھی عسکریت پسند گروپ کو پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو بحال کرنے اور پھیلانے میں مدد کی ہے، اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ کئی امن معاہدے ناکام رہے ہیں اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گرد نیٹ ورکس کے کمزور ہونے کی وجہ سے پاکستان پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں کامیاب رہا ۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے سے ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں اور افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔ شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی مہلکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔
افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم ہونے کے بعد کئی عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے خلاف فتح کے بے بنیاد احساس اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے مرکزی محاذ، صوبہ خیبر پختونخوا میں ناکافی انسداد دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے سے پیدا ہونے والی خوش فہمی بھی عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے کا سبب بن رہی ہے۔ طالبان کی واپسی کے بعد سے خیبر پختونخوا کی پولیس، بشمول سی ٹی ڈی، نے ٹی ٹی پی کے حملوں کا خمیازہ اٹھایا کیونکہ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کی افرادی قوت کم تربیت یافتہ، وسائل سے محروم اور ناقص طور پر لیس ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردی کی تربیت گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس صورتحال میں افغان حکومت کو دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے جس میں پہلی ترجیح اپنے ملک کو دہشت گرد وں کے دباؤ اور اثر سے آزاد کرانا ہونی چاہیے۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اور طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے دہشت گرد پاکستان آ کر کارروائیاں کر کے بارڈر پار افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔ طالبان حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان حدود میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کو تلف کیا جائے گا۔
افغان طالبان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس سلسلے میں فوری کام شروع کردیا جائے گا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اب ایک سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت افغانستان میں کتنا اثر رکھتی ہے۔ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی بین الااقوامی طاقت نے براہِ راست تسلیم نہیں کیا اور انھیں اندرونی چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔ ٹی ٹی پی کے تقریباً 10 ہزار دہشت گرد بلوچستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں جو مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ کر کے روپوش ہو جاتے ہیںاس لیے افغان طالبان کے لیے مشکل ہو گی کہ وہ کوئی بڑ ی کارروائی کر سکیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام شراکت داروں کو قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا لیکن اس حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں ابہام اسی لیے ہے کہ سیاسی جماعتیں اہم قومی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور سیاسی عدم استحکام نے امن و امان کی صورتحال اور معاشی حالات کو سنگین کر دیا ہے۔
ملکی سالمیت اور امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے سیاسی قیادت کی یہ بنیادی ذ مہ داری ہے کہ وہ ایک پیج پر اکٹھی ہو اور اس عمل میں بلاشبہ حکومتِ وقت کو مفاہمت کی فضا کو فروغ دیتے ہوئے دہشت گردی جیسے خطرناک مسئلے کے حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمے داری لینی چاہیے۔