پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز نظرآ رہا ہے۔ آج کل بنگلہ دیش کی فوج کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان کے دورہ پر ہے۔ اس وفد نے آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔
یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے ورنہ اس سے پہلے تو بنگلہ دیش بھارت کی پراکسی بنا ہوا تھا اور بھارت کی مکمل گود میں بیٹھا نظر آتا تھا۔ بنگلہ دیش کی سابقہ حکمران حسینہ واجد کے بارہ سالہ دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات ہر سطح پر تقریباً ختم ہی ہو گئے تھے۔ کہیں کوئی رابطہ اور تعاون نظر نہیں آتا تھا۔
جیسے بھارت نے پاکستان کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا ہوا تھا ویسے ہی بنگلہ دیش کا بائیکاٹ بھی نظر آتا تھا۔ بنگلہ دیش بھی عالمی فورمز پر بھارت کی طرز پر پاکستان کی مخالفت کرتا نظر آتا تھا۔ لیکن حسینہ واجد کے جانے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان نہ صرف رابطے بحال ہوتے نظر آرہے ہیں بلکہ تعاون کی نئی راہیں بھی کھلتی نظر آرہی ہیں۔ بنگلہ دیش کو فوجی سامان چاہیے ان کے پاس فائٹر جیٹ کی کمی ہے۔ دیگر فوجی سامان کے لیے بھی ان کا بھارت پر بہت انحصار تھا جو اب ختم ہو رہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حسینہ واجد کے بھارت میں پناہ لینے کے بعد بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت پاکستان کے ساتھ قربتیں بڑھا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے تنازعات اور اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں۔ دونوں ممالک کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف پاکستان اس خلا کو پر کر رہا ہے۔پاک فوج اور بنگلہ دیش کے فوجی حکام کے درمیان ملاقات میں دونوں ممالک نے بیرونی مداخلت سے نبٹنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا ہے۔
پاکستان کو بھی بھارت سے بیرونی مداخلت کا خطرہ ہے۔ جب کہ اگر بنگلہ دیش کو دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کے بھی صرف دو ممالک سے ہی بارڈر لگتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے صرف دو ہمسائے ہیں ایک بھارت اور دوسرا میانمار۔ میانمار میں تو بنگلہ دیش پر حملہ کرنے یا مداخلت کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ آج کل بنگلہ دیش کو بھارت سے خطرہ ہے اور جب بنگلہ دیش کا فوجی وفد بیرونی مداخلت کی بات کر رہا ہے تو بھارت سے مداخلت کی بات کر رہا ہے۔ اس لیے دونوں فوجیں پاکستان اور بنگلہ دیش میں آج کل یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں کو بھارت سے ہی بیرونی مداخلت کا خطرہ ہے۔ دونوں کو بھارت سے جارحیت کا خطرہ ہے۔ یہی قدر مشترک بنگلہ دیش اور پاکستان کو دن بدن قریب کر رہی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی وجوہات ہیں۔
آجکل بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحدی تنازعات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت کا موقف ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت سرحدوں کے حوالے سے بھارت کے ساتھ کئی یک طرفہ ایسے معاہدات کر گئی ہے جو بنگلہ دیش کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اسی لیے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر بھارت جو باڑ لگا رہا ہے اس کے کام کو بنگلہ دیش کی بارڈر فورس نے کئی دفعہ روکا ہے۔
دو دن قبل بھارت کے سفیر کو بنگلہ دیش کی دفتر خارجہ بلا کر احتجاج بھی کیا گیا۔ سرحدی فورسز کے درمیان گزشتہ چند دنوں میں کئی ٔفلیگ میٹنگز بھی ہوئی ہیں۔ لیکن معاملات حل نہیں ہو ئے ہیں۔ اس لیے خطہ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی کشیدگی سب کے لیے نئی ہے۔ اور اس نئی صورتحال میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے فوجی حکام کی ملاقاتیں بھی نیا پیغام ہیں۔ بنگلہ دیشن نئی صورتحال میں پاکستان کے ساتھ فوری فوجی تعاون بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بنگلہ دیشن کا دوسرا ہمسایہ میانمار ہے۔ میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی پانچ جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ جنگیں بنگلہ دیش نے جیتی ہیں۔ بنگلہ دیش نے عالمی عدالت سے بھی میانمار کے خلاف ایک سمندری سرحد کا مقدمہ جیتا ہے۔ لیکن آج کل جب بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہے بھارت میانمار کو بنگلہ دیش کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
پہلی جنگوں میں بھی بنگلہ دیش کو میانمار کے خلاف بھارت کا تعاون حاصل رہا ہے لیکن اب شاید وہ نہ ہو۔ اس لیے بنگلہ دیش نئے دفاعی پارٹنرز کی تلاش میں ہے۔ اس ضمن میں اس کی پہلی اور آخری چوائس پاکستان ہی بنتا ہے اور پاکستان سے ہی دفاعی تعاون بڑھانے پر بات ہو رہی ہے۔
دفاعی تعاون کے ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعاون بڑھانے پر بھی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا تجارتی وفد بھی بنگلہ دیش کے دورہ پر ہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے پر بات ہو رہی ہے۔ ابتدائی طور پر اگلے پانچ ماہ میں بنگلہ دیش پاکستان سے آٹھ لاکھ ٹن چاول درآمد کرے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھی گزشتہ دنوں کابینہ کی ایک میٹنگ میں بنگلہ دیش کو چاول برآمد کرنے کی خبر دی تھی۔
اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی تجارت غیر علانیہ طور پر بند تھی۔ حسینہ واجد کی حکومت پاکستان کے ساتھ تجارت کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتی تھی۔ لیکن موجودہ عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے پاکستان کے ساتھ روابط کی بحالی پر بہت تیزی سے کام کیا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے فنکار بھی بنگلہ دیش گئے ہیں۔ نامور گلوکار ڈھاکا گئے ہیں۔ وہاں انھیں بہت پذیر ائی ملی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات بھی معطل تھے۔ ایک نئے دور کا آغاز وہاں بھی نظر آرہا ہے۔بھارت نے بنگلہ دیش کی ثقافتی مارکیٹ پر بھی قبضہ کیا ہوا تھا اور وہاں بھی پاکستان کا داخلہ بند کیا ہوا تھا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی قربتیں یقیناً خطہ میں طاقت کا نیا توازن قائم کر رہی ہیں۔ بھارت کے لیے مشکلات ہونگی ورنہ اس سے پہلے تو بھارت بنگلہ دیش کو ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف ہی استعمال کرتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ مجھے کئی سال پہلے حسینہ واجد کی اقوام متحدہ میں ایک تقریر یاد ہے جہاں وہ پاکستان کے خلاف وہی الزامات لگا رہی تھیں جو بھارت لگاتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بھارت کی تقریر پڑھ رہی ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اگر بھارت افغانستان کے قریب ہو رہا ہے تو پاکستان بھی بنگلہ دیش کے قریب ہو رہا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی عدم توازن بھی غیر معمولی ہے۔ بھارت بنگلہ دیش کو بارہ ارب ڈالر کی بر آمدات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت نے چاول اور دیگر اشیا کی درآمد پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے۔ جب کہ بھارت بنگلہ دیش سے صرف دو ارب ڈالر کی درآمد کرتا ہے۔ اس طرح دس ارب ڈالر کا تجارتی عدم توازن موجود ہے۔ جو بھارت کے مفاد میں ہے۔ جیسے جیسے بنگلہ دیش بھارت سے تجارت کم کرے گا تو دوسرے ممالک کو بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کرنے کا موقع ملے گا۔