بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کی سوشل میڈیا پر ایک گفتگو زیر بحث ہے جس میں انھوں نے اپنے بھائی کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے تشبیہ دی ہے اور ان کے سیاسی استعمال پر باتیں کی ہیں اور پارٹی کے بعض رہنماؤں اور اپنی تیسری بھابھی بشریٰ بی بی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
علیمہ خان ایک غیر سیاسی خاتون ہیں، نہ ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ ہے نہ وہ پی ٹی آئی حکومت میں سیاسی طور پر اتنی متحرک تھیں جتنی اب ہیں اور اپنے اسیر بھائی کی رہائی کے مطالبے بھی اپنی بہنوں سے مل کر، کر رہی ہیں ۔ علیمہ خان اپنے بھائی کی واحد بہن ہیں کہ جن پر اپنے بھائی کی حکومت میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کمانے کے الزامات لگے تھے، جس کی انھوں نے وضاحت بھی کی تھی۔ علیمہ خان اپنے بھائی سے جیل میں ملاقاتیں کر کے میڈیا سے کچھ باتیں شیئر کرتی ہیں ۔
بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اپنے گھر لاہور اور اسلام آباد کو چھوڑ کر چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں خود کو محفوظ سمجھ کر رہ رہی ہیں اور اپنے طور سیاست کر رہی ہیں مگر بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں زیادہ ملاقاتیں علیمہ خان کی ہوتی ہیں اور وہ میڈیا میں نمایاں رہتی ہیں اور تینوں بہنوں کے بانی پی ٹی آئی کی دو سابق بیویوں کی طرح تیسری بیوی بشریٰ بی بی کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں اور بہنوں اور بھابھی کے تعلقات کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں اور بہنوں اور بیوی کی طرف سے پی ٹی آئی پر اجارہ داری کی خبریں بھی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
حکومت کے بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات اور ایسے فیصلوں کے عدالتی اخراج نے واقعی سونے کی چڑیا اور ہما بنا دیا ہے جس سے پارٹی کے باہر کے نئے آنے والوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور اس سے قبل جس نے کبھی کونسلر کا الیکشن نہیں لڑا تھا وہ باقی کے سر پر ہاتھ رکھنے سے پارلیمنٹ پہنچ گیا اور ایسے لوگ اب ایک دوسرے پر ترجیح کے لیے ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں اور آپس کی سیاسی لڑائی کے لیے اپنے اسیر بانی کو بھی پریشان کر رہے ہیں ۔ کے پی میں بانی کا پنجاب سے زیادہ سیاسی اثر ہے اس لیے وہاں سے کچھ لوگ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔
ملک کے بعض بڑے وکلا جو پی ٹی آئی حکومت میں بانی پی ٹی آئی سے دور تھے بعد میں خان کی گرفتاری پر ان کی وکالت کے لیے بھاری فیسیں وصول کرتے رہے پی ٹی آئی میں آئے اور انھوں نے سیاسی مفاد کے لیے فیس کے بجائے بانی سے انتخابی ٹکٹ لیا اور پارلیمنٹ میں پہنچ گئے مگر پی پی میں رہ کر بانی کی حمایت کرنے والے چوہدری اعتزاز احسن واحد نامور وکیل ہیں جنھوں نے پی پی سے وفاداری نبھائی مگر پی ٹی آئی میں شامل ہو کر لاہور سے انتخابی ٹکٹ نہیں لیا جب کہ پی پی دور کے گورنر پنجاب لطیف کھوسہ پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئے اور قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔
حکومتی رہنما خصوصاً (ن) لیگی بانی پی ٹی آئیپر بہت الزامات لگاتے ہیں مگر انھیں حیرت ہوئی ہوگی بانی پی ٹی آئی سوا سال سے ان کی اپنی لیگی حکومت میں جیل میں ہیں اور مسلسل حکومت کو پریشان کر رہے ہیں اور دو سو حکومتی مقدمات اور سزائیں انھیں جھکانے میں کیوں ناکام رہے اور حکومت کے غلط سیاسی فیصلوں نے انھیں سونے کی چڑیا بنا دیا جس کی زیر عتاب پارٹی نے ان کے جیل میں ہونے کے باوجود فروری کے الیکشن میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے متعدد سینئر سیاستدان بار بار حکومتوں میں رہے اور اب بھی ہیں مگر اقتدار کے باوجود وہ اسیر بانی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو نہ روک سکے جب کہ بانی ایک بار وزیر اعظم بنا جس کی حکومت اچھی شہرت کی حامل نہ تھی مگر وہ اب بھی جیل میں ان سے زیادہ مقبول ہے۔ عوام کی ایک تعداد اس کی حامیہے اور اسی وجہ سے ان کا سیاسی استعمال ہو رہا ہے اور مفاد پرست ان کی حمایت کرکے فائدے اٹھا رہے ہیں۔