غزہ میں جنگ بندی معاہدہ اور فلسطینی کاز

اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔


ایڈیٹوریل January 17, 2025

حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پاگیا، جس کا باقاعدہ اعلان قطر کے وزیراعظم نے کردیا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 روز پر محیط ہوگا اور اسرائیل فورسز کی غزہ کے شہری علاقوں سے سرحد پر واپسی ہوگی اور قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ، زخمیوں اور مریضوں کو باہر لے جانے کی اجازت ہوگی، انسانی بنیاد پر پورے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر امداد بھی فراہم کردی جائے گی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ غزہ میں جاری لڑائی کو پندرہ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، مصر اور قطر کئی مہینوں سے اسرائیل کو فائر بندی اور حماس کو یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم یہ مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد مرتبہ تعطل کا شکار ہوتے رہے تھے۔ امن معاہدہ طے پانے کے باوجود غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں۔

تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید بتیس فلسطینی شہید ہوگئے، یعنی اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی وحشت و بربریت اور انسانی قتل عام کا تسلسل ابھی بھی برقرار ہے۔ جنگ کے بعد غزہ کو کون چلائے گا؟ یہ ایک بہت بڑا جواب طلب سوال ہے۔ اسرائیل نے حماس کی کسی بھی شمولیت کو مسترد کردیا ہے جس کا جنگ سے پہلے غزہ پر قبضہ تھا لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کا بھی تقریباً برابر مخالف رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی تین عشرے قبل اوسلو کے عبوری امن معاہدے کے تحت قائم کی گئی جو مغربی کنارے میں محدود حکمرانی کے اختیارات رکھتی ہے۔

اسرائیلی حکام فلسطینی اتھارٹی پر اسرائیل کے خلاف حملوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے اور کہتے ہیں کہ غزہ سے باہر فلسطینیوں میں حماس کی وسیع حمایت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فلسطینی ریاست لازمی طور پر گروپ کے قبضے میں چلی جائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی پر الفتح دھڑے کا غلبہ ہے جو سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے تشکیل دیا۔ اسے حریف حماس کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جس نے اسے 2007 میں ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ سے باہر نکال دیا تھا۔حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہونے کے بعد غزہ پٹی کے انتظام پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے قاہرہ کی میزبانی میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔

یہ چوتھی بار ہے کہ دونوں فلسطینی وفود مصر کے دارالحکومت میں ملے ہیں۔ اس سے قبل 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد مذاکرات میں دونوں پارٹیاں تباہ شدہ پٹی کے انتظام کے فارمولے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہی تھیں، جب کہ امریکا اور بعض مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ پر فلسطینیوں کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے، جس کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اگر سب کچھ ٹھیک رہا، تو فلسطینیوں، عرب ممالک اور اسرائیل کو جنگ کے بعد غزہ کے لیے ایک وژن پر اتفاق کرنا ہوگا۔

 چند دن بعد ٹرمپ دوسری بار حلف اٹھانے جا رہے ہیں، ان کی موجودگی میں اسرائیل کے حوصلے بھی مزید بلند ہونگے۔ اس کے باوجود ہر فریق یہ جانتا ہے کہ جنگ اس کے مفاد میں نہیں۔ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی ہے جس پر مہرے آگے بڑھائے اور پیچھے ہٹائے جاتے رہیں گے۔ حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے اسے اپنے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسے ایک تاریخی موقع بھی قرار دیا۔ غزہ میں حماس کی نگرانی میں کام کرنے والی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ساڑھے چھیالیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

 اسرائیل نے غزہ کو عملاً انسانی خون میں نہلا دیا ہے جہاں انسانیت اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگِ انسانیت وحشت و بربریت کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ انسانیت کو تو شرما ہی رہے ہیں۔ اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں حشر اٹھایا ہے وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ابواب میں شامل ہوچکا ہے۔ غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت کسی انسان کو بھی نہیں بخشا گیا۔

تعلیمی اداروں، مدارس، مساجد، مارکیٹوں اور اسپتالوں تک پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ بے رحمانہ بمباری کے ذریعے غزہ کی زمین کے چپے چپے کو ادھیڑ دیا گیا اور ہنستی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا۔ اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان لقمہ اجل بن گئے اور زندہ بچنے والے انسان زخمی حالت میں بے یار و مددگار ہو کر کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے، علاج معالجہ اور ادویات و خوراک کی فراہمی کے بغیر ہی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے اور دنیا کی جانب سے سوائے رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے، مظلوم فلسطینیوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پایا۔

اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ہر قسم کے اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے اور جنگی جنون کو آگے بڑھانے میں اس کا ہاتھ بٹایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس نے اسرائیل پر میزائل حملوں کی منصوبہ بندی گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری اس کے ننگ انسانیت مظالم کے ردعمل کے علاوہ بعض مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم و اقدامات کو بھانپ کر بھی کی تھی کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر ایک صیہونی ریاست کا زبردستی اور ناجائز طور پر قائم ہونا ہی لمحہ فکریہ تھا۔

 جب بعض عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدامات اٹھائے جاتے نظر آئے تو حماس نے ایک مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اسرائیل پر میزائل حملوں کا منصوبہ بنایا جس میں وہ سرخرو بھی ہوئی۔ کیونکہ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا اور انسانیت کو شرمانے والے اقدامات اٹھائے، اس کے پیش نظر ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ٹھانے بیٹھی مسلم قیادتوں کو اپنے ممکنہ مشترکہ اور انفرادی فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد ہونے کے باوجود اسرائیل یہودی کیسے دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں۔

یہ جاننا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیلی یہودیوں میں کیا خوبی ہے جو وہ اقوام متحدہ، امریکا اور اہل مغرب کو اپنے ہر فیصلے پر ہمنوا بنا لیتے ہیں اور مسلم ممالک پر قیامت برپا کیے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ جان و دل سے مخلص ہوتے ہیں۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق کاروباری سوجھ بوجھ رکھنے کی خوبی انھیں دنیا کی دولت مند ترین قوم بناتی ہے۔

تعلیم، تحقیق اور جستجو کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں، اسی لیے تعداد میں بہت تھوڑے ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، سیاسیات اور دیگر علوم پر اِن کا کنٹرول ہے۔ آئی ٹی،میڈیا، بینکنگ اور اہم صنعتوں پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور فزکس، کیمسٹری، اکنامکس، لٹریچر اور میڈیسن کے شعبوں میں 22 فیصد نوبل انعام اسرائیلی یہودی اپنے نام کرچکے ہیں۔ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے۔فلسطین ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس، واقع ہے اور جہاں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفرکیا تھا۔

فلسطین کی زمین مسلمانوں کے لیے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہوئے، حکمرانوں نے احتجاج کیا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل دفاعی، معاشی، سیاسی اور میڈیا میں طاقتور ہوتا گیا اور اپنی حدود بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرنے لگا۔ پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کو بمباری سے تباہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پر چڑھائی کر چکی ہیں۔ امریکا، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک انسانی اور سیاسی بحران بن گیا۔

اسلامی تعاون تنظیم بس رسمی سے اجلاس منعقد کرتی رہی۔ دراصل کئی اسلامی ممالک کو داخلی مسائل، جیسے غربت، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

مسلم امہ کی خاموشی کی بڑی وجہ معاشی مفادات، داخلی تنازعات اور عالمی دباؤ ہیں، لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے۔ بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس تمام بے حسی کے باوجود فلسطینی عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے حق خود ارادیت، آزادی، اور عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی مظلوم کیوں نہ ہوں۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں