کسی بھی معاشرے کی ترقی، خوشحالی،سیاسی، سماجی،انتظامی اور معاشی ترقی کے امکانات کا براہ راست تعلق دنیا میں جدید تعلیمی تصورات اور لوگوں کی تعلیم تک رسائی ہے۔ا س عمل میں ایک بڑا مسئلہ لڑکیوں کی پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک رسائی بھی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم و ترقی پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔
ایک مسئلہ جہاں حکومتی ترجیحات کا ہے تو دوسری طرف ہمارا سیاسی ،سماجی اور انتظامی ڈھانچہ ہے جو تعلیم کی اہمیت اور رسائی کو کم کرتا ہے۔حال ہی میں پاکستان میںجو عالمی کانفرنس لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے منعقد ہوئی ہے اس کے مشترکہ اعلامیہ میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم سب کو پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم میں موجود تمام تر رکاوٹوںکو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔عالمی کانفرنس رابطہ اسلامی اور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم،چیلنجز اور مواقع کی دو روزہ کانفرنس نے اس نقطہ پر بھی زور دیا کہ مسلم معاشرے میں انتہا پسند خیالات ، سیاسی اور سماجی فتوؤں سے لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام نہ کیا جائے۔
اسی طرح اس نقطہ پر بھی زور دیا گیا کہ مسلم معاشرے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں اور افغان طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی شدید مذمت کی گئی اور کہا کہ طالبان افغان عورتوں کو انسان نہیں سمجھتے۔پاکستان میں بھی ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے جن میں سوا کروڑ بچیاں بھی شامل ہیں۔
اعلان اسلام آباد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن،سماج کو انتہا پسندی ،تشدد اور جرائم سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ عورتوں کی تعلیم ان کا بنیادی حق اور ریاست کی بنیادی ذمے داری بھی ہے۔آج کے ریاستی نظام میں موجود جدید تصورات میں ہم لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کرکے ان کی ترقی کو ممکن نہیں بنا سکتے ہیں۔پاکستان ہو یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پرائمری تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور صوبائی سطح پر اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہم پہلے سے طے شدہ اہداف لڑکیوں کی تعلیم میں مکمل نہیں کرسکے۔
2000-15 اور 2016 - 30 میں ہم عالمی سطح پر ملینیم ترقی اہداف میں بھی لڑکیوں کی تعلیم میں پیچھے کھڑے ہیں۔مضبوط گورننس کے نظام کی عدم موجودگی اور مقامی حکومتوں سے انحراف پر مبنی پالیسی بھی ہمیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ہم تو آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے تناظر میں بہت سے فکری مغالطوں کا شکار ہیںجن میں ان کی تعلیم کی اہمیت سے انکار بھی ہے۔
اس کی ایک وجہ ہم لڑکیوں کی معاشی سرگرمیوں میں شرکت کے حامی نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو روزگار کی بجائے گھروں تک محدود رہنا چاہیے۔بالخصوص دیہی اور پسماندہ یا قبائلی علاقوں میں آج بھی تعلیم ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود ہے۔پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کی باتیں بڑی شدت کے ساتھ کی جاتی ہیں اور اس پر سیاسی نعرے بھی لگتے ہیں لیکن عملی طور پرہم وہ کچھ نہیں کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔تعلیم کی ترقی اور اس کے اہداف کا کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اور یہ عمل ریاست کے تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں سے ہوگا۔
بدقسمتی سے مسلم معاشروں اور مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے معاشروں میں ان تعصبات اور تفریق کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جو عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔لڑکیوں کی تعلیم کو محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ اب دنیا بھر میں معاشرتی اور معاشی سطح کی ضرورت بن گئی ہے۔ بہت ترقی کی لیکن علمی اور سماجی تحریکوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ہم نے عورتوں کے سماجی کردار کو قومی ترقی کے دھارے میں دیکھنے کی بجائے سیاسی سطح پر دیکھا ہے۔
مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ ترقی مادی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ علم اور ترقی کی بجائے انتظامی ڈھانچوں کی ترقی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔اسی وجہ سے انسانی وسائل پر جو کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہو پاتا۔ہم نے علم و تحقیق کے ادارے بنانے کی بجائے اپنی توجہ ایسے منصوبوں پر رکھی جس سے لوگوں کے اندر نمود و نمائش کا کلچر عام ہو۔انسانی وسائل پر زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ہم نے محدود وسائل ان پر خرچ کیے۔آج کی گلوبل دنیا میں عورتوں کی تعلیم اور ترقی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔جو مسلم معاشرے عورتوں کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں یا ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد عورتوں کو روایتی طرز سیاست کے اندر محدود کرنا ہے وہ عورتوں کی ترقی کے امکانات کو مزید محدود کر دے گا۔
مسلم معاشروں میں عورتیں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور اپنے لیے ترقی کے مواقع تلاش کرنا چاہتی ہیں۔کیونکہ ان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ تعلیم اور ترقی ان کو معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر شعور بھی دے گی۔اور وہ اس شعور کی بنیاد پر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بھی ترقی کے مواقع تلاش کر سکیں گی۔ہم جب یورپ کی ترقی کا راز دیکھتے ہیں تو انھوں نے خاص طور پہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی ہے۔
تعلیم سے مراد محض رسم الخط نہیں یا لکھنا اور پڑھنے کی صلاحیت نہیں بلکہ اب تو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو کم سے کم پرائمری ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت ہے جہاں صوبائی سطح پر صوبائی حکومتیں ایک ایسا جواب دہی کا نظام بنائیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے اہداف کے مکمل کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔